نمونے کے انسان |
زرگان د |
|
لیا،پھر جب بورڈ آف تعلیمات اسلام کی رکنیت ختم ہوگئی ،کوئی ذریعہ معاش نہ تھا اور دارالعلوم کی خدمات شب وروز کا مشغلۂ زندگی بنی ہوئی تھیں تو جمادی الاولی ۱۳۷۴ھ سے مجلس منتظمہ کی درخواست پر پانچ سو روپئے مشاہرہ لینا منظور فرمالیا،مگر شعبان ۱۳۷۷ھ سے اس مشاہرہ میں ازخود کمی کرکے صرف تین سو روپئے ماہوار باقی رکھے،جس کا اکثر حصہ دارالعلوم کی ضروریات ،ٹیلی فون آمد ورفت اور مہمان داری میں خرچ ہوجاتا،پھر ۱۳۸۴ھ سے یہ تیں سو رپئے لینا بھی ترک فرمادیا۔ اس عرصہ میں جتنی رقم دارالعلوم سے بطور مشاہرہ وصول کی تھی،والد صاحب کی خواہش تھی کہ اس کو بتدریج واپس فرمادیں،چنانچہ متفرق اوقات میں مختلف عنوانات سے تقریباً ساڑھے بیالیس ہزار روپئے دارالعلوم میں داخل فرمائے۔(البلاغ مفتی اعظم نمبر۔ج۱۔ص۲۱۳)استغناء: حضرت مولانا شبیر احمد عثمانی قدس سرہ پاکستان کے صف اول کے معماروں میں شامل تھے،قائد اعظم اور نواب زادہ لیاقت علی خان مرحوم تقسیم ملک کے وقت آپ کو اپنے ساتھ پاکستان لے آئے تھے،اور مغربی پاکستان میں پاکستان کا پرچم سب سے پہلے مولانا ہی نے لہرایا تھا،اگر آپ چاہتے تو یہاں اپنے لئے بہت کچھ دنیوی سازوسامان اور عہدہ ومنصب حاصل کرسکتے تھے، لیکن مولانا نے آخرتک درویشانہ زندگی گزاردی،اپنے لئے کوئی ایک مکان بھی حاصل نہ کیا بلکہ وفات تک دو مستعار لئے ہوئے کمروں میں مقیم رہے اور اسی حالت میں دنیا سے تشریف لے گئے کہ نہ آپ کا کوئی بینک بیلنس تھا نہ ذاتی مکان تھا نہ سازوسامان۔(البلاغ مفتی اعظم نمبر۔ج۱ ص۲۸۰)استعفا ء درجیب: جس زمانہ میں آپ(مفتی محمد شفیع صاحب)بورڈ آف تعلیمات اسلام کے رکن تھے اس دور میں آپ نے ایک دینی ضرورت کے تحت حکومت کے خلاف ایک اخباری بیان دے دیا، اس پر ایک اعلی سرکاری عہدے دار نے آپ سے کہا کہ مفتی صاحب!آپ نے بورڈ کا ممبر ہوتے ہوئے ایسا بیان دیا،حالانکہ یہ بورڈ حکومت ہی کا قائم کردہ ہے،اس پر حضرت والد صاحب نے فرمایا کہ اول تو بورڈ کے ارکان حکومت کے ملازم نہیں ،اور اگر ملازم بھی ہوںتو شاید یہ ملازمت ان