نمونے کے انسان |
زرگان د |
|
بے انتہا محبت : مولانا حبیب الرحمان صاحب دیوبندی نے فرمایا کہ مولانا محمود حسن صاحب مرحوم حضرت نانوتوی کے اخلاق مربیانہ اور شفقت ورحمت کی توصیف کرتے ہوئے فرمانے لگے کہ بس حضرت کے اخلاق کا اندازہ اس مثال سے ہوسکتا ہے کہ مثلاً میں اپنے ماں باپ کا اکلوتا بیٹا ہوں، جو بہت تمنائوں کے بعد پیدا ہوا ہوں،ظاہر ہے کہ مجھ سے کتنا انس ہوگا،اچانک میں گرفتار ہوکر دائم الحبس کردیا جائوں کہ پھر میری واپسی اور ملاقات کی کوئی توقع ماں باپ کو نہ رہے ،ظاہر ہے کہ ان پر کس درجہ غم والم کے پہاڑ ٹوٹ پڑیں گے کہ گویا قبل از مرگ ہی مرجائیں گے،اور پھر میں اچانک رہا ہوکر آئوں اور ایک دم ماں باپ کے سامنے پہونچ جائوں تو بتلائو کہ ان کی اس وقت خوشی و مسرت کا کیا اندازہ ہوسکتا ہے؟بس یوں سمجھو کہ اگر میں دن میں دس مرتبہ بھی حضرت کی خدمت میں حاضر ہوکر سلام کرتا تو مجھے دیکھ کر ہر مرتبہ اتنا ہی خوش ہوتے جتنا کہ میرے ماں باپ اس وقت خاص میں خوش ہوسکتے ہیں۔(ارواح ثلاثہ۔ص۱۹۴)غریب کی دعوت: مولانا احمد حسن صاحب نے فرمایا کہ مولانا قاسم صاحب کی ایک نورباف نے دعوت کی اتفاق سے اس روز بارش ہوگئی،اور وہ بے چارہ وقت پر بلانے نہ آسکا،تو مولانا محمد قاسم صاحب خود اس کے یہاں تشریف لے گئے،اس نے عرض کیا کہ حضرت!چونکہ آج بارش ہوگئی تھی،اس لئے میں دعوت کا انتظام نے کرسکا،مولانا نے فرمایا کہ انتظام کیا ہوتا؟تمہارے یہاں کچھ پکا بھی ہے؟ اس نے کہا جی ہاں،وہ تو موجود ہے، فرمایا کہ بس وہ ہی کھالیں گے،چنانچہ جو کچھ معمولی کھانا ساگ وغیرہ اس کے یہاں تیار تھا وہ مولانا تناول فرماکر تشریف لے آئے اور فرمایا :بس جی تمہاری دعوت ہوگئی۔(ارواح ثلاثہ۔۲۱۷)چھوٹوں کا خیال: حضرت تھانوی نے فرمایا کہ دیوبند کے بڑے جلسہ کے زمانے میں ایک شخص نے مدرسہ میں گھوڑا دیا تھا،مولانا محمود حسن صاحب نے اس کو ایک مقام پر بھیج دیا کہ اس کو فروخت کردیں،اس مقام سے ایک شخص گھوڑے کے متعلق ایک خط لایا تھا،اس زمانہ میں جلسہ کا اہتمام