نمونے کے انسان |
زرگان د |
|
وہاں جمع ہوگئی تھی،راستے بند ہوگئے تھے،آس پاس کے کوٹھے اور بالاخانے خلقت سے بھر گئے تھے،اس دل پذیر وعظ کا نتیجہ یہ ہوا کہ جس قدر جوان عورتیں قابل نکاح اس مجمع میں موجود تھیں ، انہوں نے توبہ کرکے نکاح کرلیا اور جو بوڑھی سن رسیدہ نائکہ وغیرہ تھیں،انہوں نے محنت مزدوری سے گزران کرنی شروع کردی۔(کاروان ایمان وعزیمت۔ص۲۵)انوکھی مہربانی : مولانا سید محمد عرفان علیہ الرحمہ حضرت سید احمد شہید قدس سرہ کے نواسہ ہیں،ایک بڑی بی جن کی آمد ورفت ان کے یہاں تھی،اور آپ ان کی امداد فرماتے تھے،گھر کے کچھ برتن چرا کے لے گئیں،گھر والوں نے آپ کو ملامت کی اور ان کو برا بھلا کہنا شروع کیا،آپ ان کے گھر تشریف لے گئے اور روپیہ دے کر معذرت کی کہ ہم سے خدمت کرنے میں کوتاہی ہوئی،یہ رقم قبول کیجئے اوربرتن واپس کردیجئے تاکہ آپ کی بدنامی نہ ہو۔(کاروان ایمان وعزیمت۔ص۱۶۶)خدمت کا جذبہ: آپ(سید احمد شہید)جوان ہوچکے تھے،والد کا انتقال ہوچکا تھا،حالات کا اقتضا تھا کہ آپ ذمہ دارانہ زندگی میں قدم رکھیں،اور تحصیل معاش کی فکر کریں،آپ کی عمر ۱۷؍۱۸ سال کی تھی کہ ۱۲۱۸ھ یا ۱۲۱۹ھ میں اپنے سات عزیزوں کے ساتھ لکھنؤ چلے،لکھنؤ رائے بریلی سے ۴۹؍ میل ہے،سواری صرف ایک ہی تھی،اور باری باری اس پر سوار ہوتے تھے،لیکن آپ کی باری آتی تو آپ سوار نہ ہوتے بلکہ منت سماجت کرکے دوسروں کو سوار کرادیتے،ہر ایک کے سر اس کا سامان تھا جب آدھی منزل طے ہوگئی تو سب رفقاء سفر تھک گئے،اور مزدور کی جستجو ہوئی لیکن مزدور نہ مل سکا، سید صاحب جو اس موقع کی تلاش میں رہتے تھے،اپنے ساتھیوں سے بڑے عجز وانکسار سے کہا ’’اس خاکسار کی ایک عرض ہے،اگر آپ سب اسے قبول کرنے کا وعدہ فرمائیں تو عرض کروں، لوگ مطلب نہیں سمجھے اور کہا بڑی خوشی سے،آپ نے فرمایا ،نہیں ،پختہ وعدہ کیجئے،سب نے پختہ وعدہ کیا،آپ نے کہا کہ سارا سامان ایک کمبل میں باندھ کر میرے سر پر رکھ دیجئے،میں ان شاء اللہ پہونچا دوں گا‘‘۔چونکہ لوگ زبان دے چکے تھے،مجبور ہوکر انہوں نے ایسا ہی کیا اور آپ ایسے خوش ہوئے جیسے کوئی بڑی دولت ملی ہو،اور فرمایا :’’عمر بھر آپ کا یہ احسان نہیں بھولوںگا‘‘اور ہنستے بولتے لکھنؤ پہونچ گئے۔(سیرت سید احمد شہید۔ج۱۔ص۱۱۴)