نمونے کے انسان |
زرگان د |
|
خودشکنی: مولانا مظفر حسین صاحب کاندھلوی نے سات حج پیدل کئے، ایک مرتبہ حج سے واپس تشریف لارہے تھے، پانی پت سے چل کر شب کو کسی گاؤں میں سرائے کی مسجد میں قیام کیا، اوراخیر شب میں اٹھ کر وہاں سے روانہ ہوگئے، اتفاق سے رات کو سرائے میں چوری ہوگئی، بھٹیاری نے کہا کہ ایک شخص مسجد میں ٹھہرا تھا، اورصبح ہی چلا گیا، ضرور وہی چور ہے، لوگ تعاقب کے لئے آئے اور جھن جھانہ کے قریب آکر پکڑ لیا، اورکہا کہ تھا نہ چلو، آپ نے فرمایا کہ جھن جھانہ کے تھانہ میں نہ لے چلو، کہیں اورچلو، اس پر ان لوگوں نے اورشبہہ کیا ، اوروہ جھن جھانہ ہی کے تھانہ میں لے گئے، اورایک سپاہی کے حوالہ کردیا، اس نے آپ کو حوالات میں بند کردیا، تھوڑی دیر میں قصبہ کے لوگوں نے دیکھاتوتمام قصبہ میں شور مچ گیا، عوام بہت مشتعل ہوئے، اوریہ سمجھ کر کہ تھانہ دار کی بدمعاشی ہے، اس کی جان کے درپے ہوگئے، تھانہ کو لوٹنا چاہتے تھے، تھانہ دار خواجہ احمد حسن تھے، مولانا سے خوب واقف تھے، بہت مشکل سے جان بچاکر آئے، اورمولانا کو حوالات سے نکالا، اورواقعہ کی تحقیق کی، پھر لوگ اس پانی پت والے آدمی کی جان کے درپے ہوگئے، جو آپ کو پکڑ کرلایا تھا، آپ نے خواجہ احمد حسن سے فرمایا کہ اس کی جان کے ذمہ دار تم ہو، اس کے ساتھ دوتین آدمی کردو، جو اس کو پانی پت بخیریت پہونچا دیں۔ (ارواح ثلاثہ۔ص۱۵۹)مخلصانہ خدمت: مولانا مظفر حسین صاحب بہت زیادہ منکسر المزاج تھے، اپنے سب کام خود کیا کرتے تھے، بلکہ دوسروں کے کا م کردیتے تھے، عادت شریفہ یہ تھی کہ اشراق کی نماز پڑھ کر مسجد سے نکلتے، اورجوجو گھر اپنے اقارب کے تھے، ان میں تشریف لے جاتے، اوراگر کسی کو بازار سے کچھ منگانا ہوتو پوچھ کر لا دیتے، پیسہ اس زمانہ میں کم تھا، جو شئے آتی غلہ کی آتی، آپ غلہ کبھی کرتے کے پلّے میں لے جاتے، اورکبھی لنگی میں۔ (ارواح ثلاثہ۔ص۱۶۰) (۲) حضرت مولانا مفتی عزیزالرحمن صاحب قدس سرہ، دارالعلوم دیوبند کے صدر مفتی تھے، آپ کے بلند علمی مقام کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ آپ اس دور میں دارالعلوم دیوبند کے صدر مفتی رہے، جب وہاں آسمان علم کے آفتاب وماہتاب مصروف تدریس تھے، لیکن