نمونے کے انسان |
زرگان د |
|
جگہ جوں کے توں رکھے ہیں،اور ایسا معلوم ہوا کہ شاید ان میں سے کوئی نسخہ بھی فروخت نہیں ہوا، مجھے بڑا تعجب ہوا اور میں نے حضرت میاں صاحب سے ان کے بارے میں پوچھا تو اس وقت راز کھلا کہ حضرت میاں صاحب کس مقام سے سوچتے ہیں۔فرمایا کہ: ’’آج آپ کو بتاتا ہوں کہ جو حمائل شریف آپ خرید لائے تھے اس میں اغلاط بہت زیادہ تھیں،اور آپ نے اس کے دام بھی زیادہ دئیے تھے،مجھے معلوم تھا کہ ان کا تجارتی بنیاد پر نکلنا مشکل ہے،لیکن اگر میں اس وقت آپ سے اس کا ذکر کرتا تو آپ کی ہمت شکنی ہوتی،میں نے وہ تمام نسخے اس لئے آپ سے خرید لئے تھے‘‘۔(البلاغ مفتی اعظم نمبر۔ج۱۔ص۲۶۷)شفقت کی انتہا : مفتی شفیع صاحب کی وفات سے دس روز پہلے جو رمضان کا مہینہ ختم ہوا ،اس میں وقتاً فوقتاً آپ کی طبیعت بگڑنے لگتی،دل کی تکلیف باربار ہونے لگی تھی،جب یہ رمضان المبارک ختم ہوگیا تو ایک دن حسرت کے ساتھ فرمانے لگے کہ: ’’اس رمضان میں جب میری طبیعت باربار خراب ہوتی تو بعض اوقات خیال ہوتا کہ شاید اللہ تعالی اس مبارک مہینے میں موت کی سعادت نصیب فرمادیں،لیکن میرا بھی عجیب حال ہے اس خیال کے باوجود میں اس بات کی تمنا اور دعا نہ کرسکا کہ میرا انتقال رمضان میں ہو، کیوںکہ مجھے خیال یہ تھا کہ اگر یہ واقعہ رمضان میں پیش آیا تو ’’اوپر والوں‘‘کو(یعنی تجہیز وتکفین کے منتظمین اور اس میں شرکت کرنے والوں کو)بہت تکلیف ہوگی‘‘۔ میں حضرت کی زبان سے یہ جملے سن رہا تھا اور سوچ رہا تھا کہ ان کی پرواز فکر ہمارے تخیل وتصور کی ہر سرحد سے کتنی بلند ہے؟۔اللہ اکبر(البلاغ مفتی اعظم نمبر۔ج۱۔ص۴۶۵)مخالفین پر شفقت : بھٹو حکومت نے بریلوی مکتب فکر کے ایک مفتی صاحب کو گرفتار کرلیا تھا،اسی زمانہ میں کسی سائل نے دارالعلوم کراچی میں ایک استفتا بھیجا ،یہاں سے جوجواب دیاگیا اس کو اس نے شائع کردیا،اس جواب میں مفتی موصوف کے جواب کے کچھ حصے کی موافقت تھی،دارالعلوم کے اس شائع شدہ جواب کو بنیاد بناکر بریلوی حضرات نے کوشش کی اور اپنے مفتی صاحب کوچھڑا لیا،