نمونے کے انسان |
زرگان د |
|
یہ بندہ بھی اس میں شرکت کرتا تھا ، مولانا الہ آباد تشریف لاتے اور جمعہ کا دن ہوتا تو ڈاکٹر صاحب ان کو بھی دعوت دیتے ، ایسے ہی ایک جمعہ کو کسی موضوع پر بات ہورہی تھی ، مولانا نے اپنی گفتگو کے لئے امام غزالی ؒ کی ’’احیاء علوم الدین ‘‘ کا حوالہ دیا اور ساتھ ساتھ اس کی عبارت پڑھنی شروع کی ، اور پڑھتے چلے گئے ۔ میرا اندازہ ہے کہ کم وبیش ایک صفحہ کی عبارت پڑھی اور پھر اس کی توضیح وتشریح کرنے لگے ، میں ان کے حافظے کی قوت پر سخت حیرت زدہ ہوا ۔احتیاط وتقوی: مفتی یاسین صاحب کے تقویٰ اورذوقِ مطالعہ کے سلسلے میں ہمارے دوست مولانا عبد الرب صاحب اعظمی سناتے ہیں کہ ایک روزمغرب کی نماز کے بعد وہ کچھ رفقاء کے ساتھ ’’مفتی صاحب ‘‘ سے ملاقات کیلئے مبارکپور پہونچے ، معلوم ہوا کہ وہ گھرپر ہیں ، دریافت کرنے پر پتہ چلا کہ محلہ کی مسجد میں مصروفِ مطالعہ ہیں ، یہ لوگ حاضر ہوگئے ، دیکھا کہ مسجد کے اندرونی حصے میں گرمی کی وجہ سے کرتا اتار ے ہوئے ، ایک معمولی چراغ کی روشنی میں کتاب دیکھ رہے ہیں ، ان لوگوں نے سلام کیا ، وہ چونک کر متوجہ ہوئے پھر چراغ اٹھایا اور اسے ساتھ لے کر گھر کی جانب چلے انھوں نے چراغ کے بارے میں پوچھا تو فرمایا کہ یہ میرے گھر کا چراغ ہے ، نماز کا وقت ختم ہوجاتا ہے ، تو مسجد کا دیا بجھا کر اپنا چراغ جلالیتا ہوں ، اور اس میں مطالعہ کرتا ہوں ۔اﷲ اکبر! یہ تھی احتیاط اور یہ تھا تقویٰ ! اور صرف اسی ایک معاملہ میں نہیں زندگی کے ہر معاملہ میں ’’مفتی صاحب ‘‘اسی اہتمام سے تقویٰ کو کام میں لاتے تھے ۔اللہ والے: رمضان کے مہینے میں طبیعت کی خرابی کے باوجودبابوعزیزالرحمان صاحب روزے رکھتے رہے، اپنے معمولات بھی بقدر قوت ادا کرتے رہے، مگر ذہن سے خوف و خشیت کا غلبۂ حال ہٹتا نہ تھا۔ رمضان کی چھبیسویں شب میں رات کے سناٹے میں جبکہ تیماردار بھی سوگئے، اﷲ جانے کون سی طاقت ان میں آگئی تھی کہ مکان کی اونچی دیوار جس پر شیشے کے ٹکڑے بھی لگے ہوئے ہیں ، اور اس کی بلندی تک چڑ ھنے کا کوئی ذریعہ بھی نہیں ہے اور ان کی کمزوری کا یہ حال تھا کہ سہارے سے مشکل سے چل پاتے تھے، اس کمزوری میں کیا طاقت آگئی تھی کہ چھ فٹ کی دیوار پر چڑھے اور