نمونے کے انسان |
زرگان د |
|
کہ کسی نے کہا دیوبند میں مسلمانوں کا ایک بڑا مدرسہ ہے، ارادہ یہ ہواکہ اسی سفر میں اسے بھی دیکھ لیں،چنانچہ دیوبند پہونچ گئے، تعلیم کازمانہ تھا ، ہرطرف چہل پہل تھی، طلبہ کتابیں لے کر ادھر سے ادھر درسگاہوں میں آجارہے تھے، یہ منظر بھلا معلوم ہوا، ہم لوگ درسگاہوں کے پاس کھڑے ہوہو کر درس کے مناظر بھی دیکھتے رہے، چلتے چلتے ایک ایسی درسگاہ کے سامنے پہونچے، جو نسبۃً بڑی تھی،اورطلبہ بھی زیادہ تھے، اورجومولانا صاحب پڑھارہے تھے، وہ بڑے شخص معلوم ہورہے تھے، صورت عجیب پر کشش تھی، ہمارے قدم وہیں رک گئے، تھوڑی دیر کھڑے ہوکر درس سنتے رہے، پھر اندر جاکر بیٹھ گئے، سبق ختم ہوا تو مولانا صاحب اٹھ کر باہر آئے، بہت سے لڑکے ان سے مصافحہ کرنے لگے، میرے جی میں بھی بے اختیار آیا کہ ہاتھ ملالوں، لیکن ہندو ہونے کی وجہ سے طبیعت ہچکچائی، مولانا صاحب کی کشش غالب آگئی، سب طلبہ جب مصافحہ کرچکے تو میں نے بھی ہاتھ بڑھادیا، اورڈرتے ڈرتے مصافحہ کرلیا، مصافحہ جیسے کیا ویسے ہی دل میں ایک جوش اٹھا، اور بے ساختہ میں نے اس کا اظہار بھی کردیا، کہ مولانا صاحب مجھے مسلمان کرلیجئے، اتنا سننا تھا کہ مولانا صاحب کے بڑھتے ہوئے قدم رک گئے، اوربرجستہ وہیں زمین پر میرا ہاتھ پکڑ کر بیٹھ گئے، ایک قدم بھی آگے نہ بڑھے، اورمجھے کلمہ پڑھا دیا، الحمدللہ علی احسانہ۔ یہ تھے شیخ الاسلام حضرت مدنی قدس سرہ دارالعلوم کے صدر مدرس!نئی زندگی: کلمہ پڑھانے کے بعد مجھے اپنے گھر لائے، میرے ساتھی عجیب کشمکش میں پڑ گئے، میں نے انہیں کہہ سن کر رخصت کردیا، اورخود حضرت کے پاس ٹھہر گیا، حضرت مدنی نے چند روز اپنے یہاں رکھ کر مظفر نگر کے ایک مدرسہ میں بھیج دیا، وہاں کے مہتمم کے نام ایک رقعہ لکھ دیا، انہوں نے میری بڑی عزت کی، اورمیری تعلیم کا نظم کردیا، میں قرآن شریف اوراردو کی تعلیم حاصل کرنے لگا، اسی دوران ایک مرتبہ میرے بھائیوں نے کسی حیلے سے مجھے گھر بلا لیا، میں چلا گیا، ان لوگوں نے مجھے مرتد ہوجانے کی ترغیب دی، میں نے انکار کردیا، ادھر سے اصرار تھا، اورمیری جانب سے انکار! بالآخر انہوں نے مجھے مارنا شروع کیا، پھر بھی میں اپنے انکار پر قائم رہا، تو انہوں نے چھری سے میرے تمام بدن کو قیمہ کردیا، اوراٹھا کر میدان میں ایک گڑھے میں مردہ سمجھ کر پھینک دیا، مجھے