نمونے کے انسان |
زرگان د |
|
ابوحنیفہ سے پوچھا تھا،ابن شیرمہ نے کہا کہ ابوحنیفہ نے مسئلہ تم کو بتایا ہوگا کہ وہ درہم دونوں کے درمیان تہائی کے حساب سے تقسیم ہوگا،میں نے کہا،جی ہاں،انہوں نے کہا کہ غلام نے غلط کہا۔ واضح ہوکہ امام صاحب کے دادا زوطی بنی تیم اللہ کے غلام تھے،اسی کی جانب قاضی شیرمہ نے تعریض کی ہے،انہوں نے مسئلہ بتایا کہ یہ تو معلوم ہے کہ ایک شخص کا ایک ہی درہم ہے،اور ضائع دو درہم ہوئے ہیں،تو یقینا دو درہم والے کا ایک درہم ضائع ہوچکا ہے،البتہ دوسرے درہم میں احتمال ہے،دونوں میں سے ہر ایک کا ہوسکتا ہے،اس لئے گم شدہ دودرہموں سے ایک تو دو والے ذمے ڈال دو،اک درہم مشترکہ قراردو،اس طرح بچا ہوا درہم آدھا ،آدھا دونوں کے درمیان تقسیم ہوجائے گا۔ عبداللہ بن مبارک فرماتے ہیں کہ مجھے ان کی یہ بات بہت پسند آئی،پھر میں امام ابوحنیفہ سے ملا،اتنا کہہ کر عبداللہ بن مبارک امام صاحب کی بلند وبالا شخصیت کی عقیدت ومحبت سے سرشار ہوکر بطور جملہ معترضہ کے فرماتے ہیں کہ: ولو وزن عقلہ بعقل نصف اہل الارض فی الفقہ لرجحہم ان شاء اللہ۔ اگر فقہ میں آدھی دنیا کی عقل کا ان کی عقل سے موازنہ کیاجائے تو ان شاء اللہ انہیں کی عقل غالب ہوگی۔ انہوں نے مجھ سے فرمایا کہ تم نے ابن شیرمہ سے مسئلہ پوچھا تھا،انہوں نے تم کو بتایا، دو درہموں میں ایک یقینا معلوم ہے کہ دو درہم والے کا ہے،اس لئے باقی درہم دونوں کے درمیان نصف نصف ہوگا،میں نے اثبات میں جواب دیا،امام صاحب نے فرمایا کہ ایسا نہیں ہے،جب دونوں کے سب دراہم مخلوط ہوگئے اور تمیز باقی نہ رہی تو ہر ایک درہم میں شرکت ہوگئی،ہر درہم میں دو تہائی ایک کا اور ایک تہائی ایک کا ہوگیا،جو دو درہم ضائع ہوئے تو دونوں کے اسی حساب سے ضائع ہوئے ،جو بچ گیا اس میں شرکت اسی حساب سے باقی رہی ۔(اخبار ابی حنیفہ واصحابہ ص۳۱ )جود وسخاوت اور دریا دلی: امام ابوحنیفہ کی سخاوت ودریادلی اور بخششوں کی جوحکایتیں عموماً مشہور ہیں وہ بجائے خود ایسی عجیب ونادر ہیں کہ خود غرضی اور کشمکش مال وجاہ کی اس دنیا میں ان کا یقین کرنا مشکل ہے