نمونے کے انسان |
زرگان د |
|
ننگے پاؤں آیا۔اس کے پاؤںمیں کیچڑ لگی ہوئی تھی۔اس نے مسجد میں داخل ہونے کے لئے جلدی جلدی پاؤں دھویا۔کچھ مٹی صاف ہوئی اور کچھ پاؤں میں لگی رہ گئی ۔اسی حالت میں وہ حضرت صاحب کے پاس آیا ۔ حضرت صاحب مصلے پر تشریف فرماتھے،وہ دوسری طرف سے آیا اور حضرت صاحب کے قریب ہوتا چلا گیا۔ یہاں تک کہ اس کا وہ پاؤں جس پر مٹی لگی ہوئی تھی، ٹھیک اس جگہ پڑا جہاں سجدے میں حضرت صاحب کی پیشانی پڑتی تھی ۔ مجھے یہ دیکھ کر سخت الجھن ہوئی۔ حضرت صاحب کے سامنے اسے ٹوکنا بے ادبی تھی ۔ میں منتظر رہا کہ حضرت صاحب دوسری طرف متوجہ ہوں تو اسے تنبیہ کروں۔ حضرت صاحب نے دوسری طرف توجہ کی اور میں نے انگلی سے اس کو ایک ٹھوکا دیا۔ زبان سے کچھ نہ کہا، حضرت صاحب نے فوراً فرمایا ۔ نہیں بیٹا!کچھ نہ کہو، اللہ کا بھیجا ہوا آیاہے۔ اندازہ کیجئے کہ آنے والے پر نگاہ نہ ہوتی ، نگاہ اس پر ہوتی تھی کہ اللہ کی مشیت سے یہ شخص آیا ہے ۔اور جب اس ذات عالی تک نگاہ پہنچ گئی تو ظاہر ہے کہ اس کا ادب غالب آکر رہا۔اب نگاہ میں نہ آنے والا یہ شخص ہے اور نہ اس کی بے ادبی ہے، بس نظرمیںایک اللہ کی ذات ِعظیم ہے۔ اللہ اکبر!استحضار کی یہ شان تھی۔انگریز اور انگریزیت سے نفرت: انگریز اور انگریزیت کے سلسلے میں حضرت اقدس اس قدر حساس تھے کہ انہوں نے اس کی ادنیٰ سے ادنیٰ چیز کبھی گوارانہیں کی۔وہ اس قافلہ غیرت و حریت میں شامل تھے جس نے انگریزوں سے کبھی صلح نہیں کی ۔ حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی نے انگریزوں کے خلاف ۱۸۵۷ء میں جہاد کیا ۔ انہوں نے اپنے کرتے میں کبھی انگریزی بٹن نہیں لگائے ۔ان کے استاذ حضرت مولانا مملوک العلی صاحب نانوتوی علیہ الرحمۃ کو کسی مجبوری سے ایک انگریز افسر سے مصافحہ کرنا پڑا تو اسے الگ کئے رہے تاآنکہ اس کو صابن سے خوب خوب صاف کیا۔ حضرت نانوتوی کے شاگرد حضرت شیخ الہند کو انگریزوں سے جتنا تنفر تھا، دنیا جانتی ہے۔ان سے کسی نے کہا کہ حضرت! انگریزوں میں کوئی خوبی بھی ہے ، تو ہنس کر فرمایا کہ ہاں ان کے کباب بہت اچھے ہوں گے ۔ خوبی بھی بتائی تو ایسی جس میں ان کی ہلاکت ہو۔ خود حضرت انگریزوں کے خلاف جہاد میں ہمیشہ سر گرم