نمونے کے انسان |
زرگان د |
|
نے پوچھ لیا کہ حضرت جب جہاز ڈوبا تھا اس وقت بھی آپ نے الحمد ﷲ ہی پڑھا تھا ، حالانکہ موقع إناﷲکا تھا ؟ فرمایا کہ میاں ! میں نے الحمد ﷲ جہاز کے ڈوبنے یا اس کی عافیت پر نہیں پڑھا ، یہاں ایک دوسری بات ہے ، لوگ سراپا اشتیاق ہوگئے کہ وہ دوسری بات کیا ہوسکتی ہے ؟فرمایا کہ مال کا ضائع ہونا ،جہاز کا ڈوب جانا ایک بڑی مصیبت ہے ، اور ایسی مصیبت کے وقت انسان حواس باختہ ہوجاتا ہے ، صبر ورضا کا دامن ہاتھ سے چھوٹنے لگتا ہے اور حق تعالیٰ سے ربط ٹوٹنے لگتا ہے ، میں نے اس مصیبت کے وقت میں اپنے دل کے بارے میں غور کیا کہ اس کا تعلق خداتعالیٰ سے کمزور تو نہیں ہورہا ہے ، بحمد اﷲ مجھے محسوس ہوا کہ حق تعالیٰ کے ساتھ اس کا وہی سابقہ ربط باقی ہے ، کسی طرح کی جزع فزع ، بے صبری ، ناراضگی دل میں نہیں ہے ، میں نے اُستواریٔ دل اور استقامت قلب پر الحمد ﷲ کہی ، پھر جب مال مایوسی کے بعد سلامت مل گیا تو یہ وقت خوشی میں آپے سے باہرہو جانے کا تھا ، حد سے زیادہ خوشی میں انسان کا قلب خدا سے غافل ہوجاتا ہے ، اس وقت بھی میں نے اپنے دل کو ٹٹولا تو وہ بحمد اﷲ اپنی سابقہ حالت پر موجود تھا ، تو اس پر میں نے الحمد ﷲ کہا ، میرا یہ شکر ادا کرنا ، اس کی حمد وثنا کرنی نہ مال کے ضائع ہونے پر ہے اور نہ اس کے مل جانے پر ، بلکہ دل کی استقامت اور تعلق مع اﷲ پر ہے ۔ سبحان اﷲ ! کیا حال تھا ان حضرات کا ، ہر طرح کے نمونے یہ حضرات اپنی زندگی میں دکھلا گئے ہیں ، ہم پچھلوں کے لئے کہیں اندھیرا نہیں ہے ، ہمارے بزرگوں نے اپنے بعدوالوں کے لئے اتنی شمعیں جلادی ہیں کہ نشانِ راہ بالکل روشن ہیں ۔یہاں ولایت ملتی ہے: ایک سادھو اپنی کٹیا میں بیٹھاہوا تھا ، اس نے اپنے چیلے سے کہا کہ بیٹا بھنگ لاؤ، پینے کا وقت ہوگیا ہے ، رات آدھی سے زیادہ بیت چکی تھی، چیلے نے کہا کہ گروجی تھیلا خالی ہے، پہلے سے خیا ل نہیں ہوا۔ گرو نے پکار کر کہا، کہیں سے لاؤ، مجھے ابھی چاہئے ، جلد کہیں سے لاؤ، چیلا بھاگاہوا جنگل میں گیا ، دور ایک کٹیا نظر آئی ، اس میں ایک دھیما چراغ جل رہا تھا ۔ یہ حضرت شیخ نصیر الدین چراغ دہلوی قدس سرہٗ کی کٹیا تھی، چیلے نے ہانک لگائی کہ یہاں بھانگ ملے گی ، حضرت بولے یہاں بھانگ نہیں ملتی ولایت ملتی ہے ، اس نے کہا وہی دیدو، فرمایا نیچے ایک ندی ہے وہاں نہاکر آؤ، وہ نہا کر آیا، حضرت نے کلمہ پڑھاکر ایسی توجہ دی کہ وہ بے خود ہوگیا ، اپنے گرو کے پاس اسی نشہ میں