نمونے کے انسان |
زرگان د |
|
کے بال پکڑ کر گھسیٹیں تو تم لوگ کیا کرسکوگے، اس کا بھی کچھ انتظام ہونا چاہئے کہ نہیں؟۔ مولانا کی یہ بات بجلی کی ایک رو تھی، جو سب بچوں میں آناً فاناً دوڑ گئی، ان کے سامنے ایک نیا موضوع آگیا، بات جو دل کی گہرائیوں سے نکلی تھی، دوسری طرف دلوں کی تہوں میں اتر گئی، بچوں نے اسی وقت جاکر اپنی ماؤں سے کہہ دیا کہ تم لوگ نمازیں پڑھو، اوراگر نہیں پڑھتیں تو ہم کھانا نہیں کھائیں گے، ماؤں کی سمجھ میں کوئی بات نہیں آئی، شام کو مرد جب گھر آئے تو عورتوں نے کہا کہ: ’’ببوا کھانا نا کھیلس پتا نا کا مولبی صاحب کہل باٹیں‘‘( یعنی بچے نے کھانا نہیں کھایا، معلوم نہیں مولوی صاحب نے کیا کہہ دیا) مرد مولانا کی خدمت میں پہونچے،اوردریافت کرنے لگے کہ آپ نے کیا کہہ دیا ہے؟ مولانا نے فرمایا کہ میں نے نماز پڑھنے کے لئے کہا ہے، یہ نہیں کہا کہ کھانا چھوڑدو، لیکن اصلاح کی ابتداء ہوگئی، بچوں کی محبت میں ماؤں نے نماز پڑھنی شروع کردی، پھر مرد متأثر ہوئے، مولانا کی حکیمانہ تلقین جاری رہی، دلوں کا لوہا گرم ہوتا، اورموقع کے مناسب مولانا چوٹ لگاتے رہتے، رفتہ رفتہ دین کے آثار پھیلنے لگے۔خدا کی غیبی امداد: بھوجپور میں غازیپور کے بدعتی پیروں کا پنجہ گڑا ہوا تھا، وہ آتے اورنذرو نیاز حاصل کرکے لے جاتے، اورجاہل مرید بدعت وجہالت کی تاریکی میں اورزیادہ ڈوب جاتے، ان پیروں نے مولانا کے اثرات محسوس کئے، انہوں نے محسوس کیا کہ علم دین کی شمع اب روشن ہو چلی ہے، ان لوگوں نے تاڑا کہ شاید کوئی وہابی آگیا ہے، انہوں نے اپنے جاہل مریدوں کو ورغلایا، اور وہابی مشہور کرکے انہیں مولانا کا مخالف بنادیا، اوراس مخالفت کی آگ کو اس حد تک ہوا دی کہ ایک جمعہ کو جاہلوں نے یہ طے کرلیا کہ آج مولانا کو جمعہ نہیں پڑھانے دینا ہے، اگر مولانا آج ممبر کی جانب بڑھے تو انہیں موت کے گھاٹ اتار دیا جائے گا۔ اس بات کی خبر بھوجپور کے رئیس مولانا عبدالرشید بھوجپوری کے والد محترم عبدالغفور خان صاحب کو ہوئی، وہ سخت کشمکش میں مبتلا ہوئے، کہ وقت کم ہے کون سی تدبیر کی جائے کہ یہ جھگڑا فرو ہو، خان صاحب کو بروقت ایک تدبیر سوجھ گئی، ایک شخص کو پانچ سوروپئے (خیال کرلیجئے آج سے