نمونے کے انسان |
زرگان د |
|
ہوئے تھے ۔میں نے جاکر حضرت کا پیغام پہونچا دیا ۔ میرے منہ سے حضرت کا سوال سنتے ہی مولانا اٹھ کر بیٹھ گئے ۔اور دونوں ہاتھ سے اپنا سر پکڑ لیا اور ایک دو منٹ تک سر جھکائے کچھ سوچتے رہے۔غالباً مولانا پر حضرت کا اصل منشا مکشوف ہوا ۔ اور مولانا نے سمجھاکہ حضرت والا اس سوال کے ذریعے کوئی اہم علم عطا فرمانا چاہتے ہیں۔ یا کسی ضروری امر کی جانب توجہ دلانی مقصود ہے ۔ ورنہ اخلاص کے لفظی معنیٰ کون نہیں جانتا ۔اس لئے قدرے تأمل کے بعد فرمایا کہ حضرت سے جاکر عرض کردیجئے کہ ’’اخلاص اس کو کہتے ہیں کہ آدمی جس کا ہوجا ئے بس اسی کا ہورہے‘‘ ۔ چودھری صاحب کہتے تھے کہ میں نے حضرت والاسے جاکر مولانا کا یہ جواب نقل کردیا ۔حضرت جواب سن کر مسکرائے ۔جس سے میںنے اندازہ کرلیا کہ حضرت نے اس جواب کو پسند فرمایا ۔انداز دلبرانہ: مولانا وقاری حبیب احمد صاحب الہ آبادی کا بیان ہے کہ میں مجلس میںحضرت والا کے قریب ہی بیٹھنے کی کوشش کرتا تھا۔اس تمنا میں کہ مخصوص جذبہ کی حالت میں لوگوں کے سر پرحضرت کا جو ہاتھ[۱]پڑا کرتا ہے،کاش وہ سعادت مجھے بھی حاصل ہوتی ،چنانچہ ہونے لگی ۔اس کے بعد سے تو یہ حال ہو گیا کہ اگر کسی دن مجھے ذرا دیر ہو جاتی اور کچھ دور بیٹھتا تو کبھی تو حضرت ہی اشارہ سے مجھے قریب بلا لیتے اور کبھی خفگی سے فرماتے اور دور بیٹھو کہیں چھینٹ نہ پڑ جائے۔لیکن شفقت و اکرام کا یہ عالم تھا کہ حضرت کے ہاتھ میں انگوٹھی تھی ۔اس کی وجہ سے جب کبھی زور کا ہاتھ سر پرپڑ جاتا تو چوٹ لگ جاتی ،مگر یہ دیکھا اور اس میں تخلف نہیں ہوا کہ بعد اختتامِ مجلس میںجب جانے کیلئے ملتا اور مصافحہ کرتا، تو حضرت کا ایک ہاتھ میرے ہاتھوں میں ہوتا اور دوسرے ہاتھ سے میرا سر پکڑ کر اس کو اپنے سینے سے قریب کر کے میرے کان میں آہستہ سے فرماتے کہ قاری صاحب آپ کی بے ادبی ہوئی، معاف کیجئے گا۔قاری صاحب فرماتے ہیں کہ میں اس جملہ کو سن کر بس ذبح ہی توہو جاتا تھا ۔انوکھی دانائی: ایک واقعہ حضرت مولانا وصی اللہ صاحب نوراللہ مرقدہ اپنی مجالس میں بکثرت بیان کرتے تھے۔ خلاصہ اس کا یہ ہے کہ ایک صاحب دل بزرگ جو زبردست عالم بھی تھے ، مگر غریب