نمونے کے انسان |
زرگان د |
|
حکمت عملی: دارالعلوم دیوبند کے ابتدائی مہتمم حضرت مولانا رفیع الدین صاحب ؒ نے ایک بار محسوس کیا کہ اساتذہ درس گاہوں میں قدرے تاخیر سے پہونچتے ہیں ، انھوں نے کچھ کہا نہیں ، انھوں نے اس دروازے پر جس سے اساتذہ گزرتے تھے چارپائی ڈال لی ، اور وقت سے پہلے آکر بیٹھ جاتے کچھ کام کرتے رہتے ، اساتذہ نے خود بخود پابندی شروع کردی ۔ ایک بزرگ استاذ اپنی بعض مشغولیات کی وجہ سے پھر بھی تاخیر سے آتے رہے ، تو ان سے تنہائی میں بہت ادب سے کہا کہ حضرت آپ بہت مشغول رہتے ہیں ، تعلیم کے وقت کے کچھ کام میرے سپرد کردیں ، میں انھیں انجام دوں گا ۔ آپ وقت پر مدرسہ تشریف لایا کریں تاکہ طالب علموں کا نقصان نہ ہو ۔حسبۃً للہ: حضرت شیخ الاسلام مولانا سید حسین احمد مدنی قدس سرہٗ دارالعلوم دیوبند سے تھوڑی سی تنخواہ پاتے تھے ، تو بسا اوقات اس کا حوالہ دیکرروتے تھے ، اور فرماتے تھے کہ میں تو دنیا دار ہوں ، حدیث پڑھاکر اتنی اتنی تنخواہ لیتا ہوں ۔ محدث کبیر حضرت مولانا حبیب الرحمن الاعظمی نور اﷲ مرقدہٗ نے کچھ عرصہ دارالعلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ میں حدیث کا درس دیا ، وہاں یہ درس انھوں نے حسبۃً ﷲ دیا تھا ، بعد میں جب یہ سلسلہ موقوف ہوگیا تو کچھ عرصہ کے بعد حضرات ندوہ کو معلوم ہوا کہ حضرت معاشی تنگی سے دوچار ہیں ۔ انھوں نے اتنے دنوں کی معقول تنخواہ حساب لگاکر حضرت کی خدمت میں بھیجی ۔ حضرت اس وقت ضرورت مند تھے ، لیکن یہ کہہ کر پوری رقم واپس کردی کہ میں نے پڑھانے میں یہ نیت کی تھی کہ محض اﷲ کے واسطے پڑھاؤں گا ۔دین ہوتا ہے بزرگوں کی نظر سے پیدا: ایک ہندو زمیندار پنجاب کا رہنے والا، دار العلوم دیوبند کی دارا لحدیث میں اتفاقاً پہونچ جاتا ہے ۔ شیخ الاسلام حضرت مولانا سیّد حسین احمد مدنی قدس سرہٗ بخاری شریف کا درس دے رہے ہیں ، وہ بھی بیٹھ جاتا ہے، جب حضرت پڑھا کر فارغ ہوجاتے ہیں ، اور اٹھ کر دارالحدیث سے باہرنکلتے ہیں ، تو بہت سے لوگ لپک لپک کر مصافحہ کی سعادت حاصل کرتے ہیں ، اس جوان کے دل میں بھی کچھ خیال آتا ہے، ڈرتا ڈرتا یہ بھی پہونچتا ہے اور مصافحہ کے لئے ہاتھ بڑھادیتا ہے،