نمونے کے انسان |
زرگان د |
|
اس مسجد کے قریب پہونچے تو دیکھا کہ مولانا محمود صاحب مذکور،دروازہ سے نکل رہے ہیں،اب یہ خیال دامن گیر ہوا کہ مجھے بوجھ لاتے ہوئے دیکھ کر انہیں سخت شرمندگی ہوگی،تو اپنے بزرگانہ فعل کو یہ کہہ کر مٹایا کہ ’’لو میاں محمود!اپنی چارپائی اٹھائو،میں بھی شیخ زادہ ہوں،کسی کا نوکر نہیں ہوں‘‘۔یہ کہتے ہوئے واپس تشریف لے گئے۔(البلاغ مفتی اعظم نمبر۔ج۱۔ص۲۳۳)یہ مقام بلند : ایک روز والد صاحب(حضرت مولانا مفتی محمد شفیع صاحب)اور یہ ناکارہ بعد مغرب حضرت مولانا سید اصغر حسین صاحب کے در دولت پر حاضر ہوئے،فرمانے لگے :آم چوسو گے؟ والد صاحب نے عرض کیاکہ آم اور پھر حضرت کے عطا فرمودہ نور علی نور،ضرور عطا ہوں،میاں صاحب اٹھے ،ایک ٹوکرا آم لا کر رکھے،اور ایک خالی ٹوکری گٹھلی اور چھلکوں کے لئے سامنے لا کر رکھ دی،ہم آم چوس کر فارغ ہوئے تو والد صاحب نے گٹھلی اور چھلکوں سے بھری ہوئی ٹوکری اٹھا کرباہر پھینکنے کے لئے چلے،پوچھا یہ ٹوکری لے کر کہاں چلے؟عرض کیا کہ چھلکے باہرپھینکنے کے لئے جارہا ہوں،ارشاد ہوا پھینکنے آتے ہیں یا نہیں؟والد صاحب نے عرض کیا کہ حضرت!یہ چھلکے پھینکنا کون سا خصوصی فن ہے جس کو سیکھنا ضروری ہے؟فرمایا ہاں،تم اس فن سے واقف نہیں ہو،لائو مجھے دو،خود ٹوکری اٹھا کر پہلے گٹھلی چھلکوں سے علیحدہ کی،اس کے بعد باہر تشریف لائے اور سڑک کے کنارے تھوڑے تھوڑے فاصلے پر متعین جگہوں پر رکھ دئیے اور ایک خاص جگہ گٹھلیاں ڈال دیں۔ والد صاحب کے استفسار پر ارشاد ہوا کہ ہمارے مکان کے قرب وجوار میں تمام غربا و مساکین رہتے ہیں،زیادہ تر وہی لوگ ہیں جن کو نان جویں بھی بمشکل میسر آتی ہے،اگر وہ پھلوں کے یکجائی چھلکے دیکھیں گے تو ان کو اپنی غربت کا شدت سے احساس ہوگا،اور بے مائیگی کی وجہ سے حسرت ہوگی،اور اس ایذا دہی کا باعث میں بنوں گا،اس لئے متفرق کرکے ڈالتا ہوں اور وہ بھی ایسے مقامات پر جہاں جانوروں کے گلے گزرتے ہیں،یہ چھلکے ان کے کام آجاتے ہیں،اور گٹھلیاں ایسی جگہ رکھی ہے جہاں بچے کھیلتے ہیں،بچے ان کو بھون کر کھا لیتے ہیں،یہ چھلکے اور گٹھلیاں بھی بہر حال نعمت ہیں،ان کو ضائع کرنا مناسب نہیں۔ یہاں یہ بات پیش نظر رہنے کی ہے کہ میاں صاحب خود تو شاید ہی کوئی آم چکھ لیتے ہوں