نمونے کے انسان |
زرگان د |
|
والد صاحب کی خدمت میں بیٹھے ادھر ادھر کی باتیں کررہے تھے، ہماری کسی کسی بات میں وہ بھی دلچسپی لیتے رہے، پھر اچانک سنجیدہ ہوگئے، اورمحترمہ والدہ صاحبہ کی مسلسل پریشانی کاذکر فرماکر ہماری اس بے پرواہی پر شرم دلائی، پھر آہ سرد بھر کر فرمایاکہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ میرا ایک راز تھا، جو میرے اوراس کے سوا کسی کو معلوم نہ تھا، تمہاری اصلاح کے لئے آج وہ راز کھولنے کی ضرورت پیش آگئی، پھر یہ واقعہ سنایا، ہم سب پر اس کا گہرا اثر ہوا، اوربحمدللہ اس گناہ سے توبہ کی توفیق ہوئی۔کمال بے نفسی: اس موقع پر ایک واقعہ بھی سنایا کہ میں دیوبند میں ایک روز نماز فجر کے لئے جارہا تھا، ایک بہت ہی ضعیف بڑی بی کو دیکھا جو پانی کا گھڑا کنویں سے بھر کر لارہی تھیں، مگر اٹھانادوبھر ہورہاتھا، بمشکل چند قدم چل کر زمین پر بیٹھ جاتی تھیں، مجھ سے دیکھا نہ گیا، پاس جاکر کہا لاؤ اماں! یہ گھڑا تمہارے گھر پہونچادوں، یہ کہہ کر میں نے گھڑا اٹھا لیا، وہ ایک چھوٹی برادری سے تعلق رکھتی تھیں، اوراسی محلہ میں رہتی تھیں، جب میں گھڑا بڑی بی کے گھر رکھ کر نکلا تو وہ نہایت لجاجت اور الحاح کے ساتھ دعائیں دینے لگیں، جو مجھے کافی آگے تک سنائی دیتی رہی، اگلے دن پھر اسی وقت اسی حالت میں ملیں، میں نے پھر گھڑا اٹھا کر ان کے گھر پہونچا دیا، واپسی میں دور تک پھر ان کی دعائیں سنتا رہا، میں یہ سوچ کر کہ یہ سودا تو بڑا سستا ہے، کہ چند منٹ کی محنت پر اتنی دعائیں ملتی ہیں، میں نے روز کا معمول بنالیا، بڑی بی بھی اس کی عادی ہوگئیں، اب میں کنویں پر ہی پہونچنے کی کوشش کرتا، تا کہ انہیں ڈول بھی نہ کھینچنا پڑے، بحمدللہ یہ معمول عرصہ دراز تک جاری رہا، یہاں تک بڑی بی نے آنا ہی چھوڑ دیا، شاید ان کا انتقال ہوگیا تھا، پھر فرمایا کہ یہ واقعہ بھی آج پہلی بار تم ہی کو بتارہا ہوں، تاکہ کچھ سبق حاصل کرو۔(البلاغ مفتی اعظم نمبر ج۱۔ص۱۱۲)سلام میں سبقت: حضرت شیخ الادب مولانا اعزاز علی صاحب کی یہ ادا سارے مدرسے میں مشہور تھی کہ وہ ہر کس وناکس کو ہمیشہ ابتدا بالسلام کرنے کا اہتمام فرماتے ،اور کوئی شخص عام طور سے انہیں سلام کرنے کی ابتدا نہیں کرسکتا تھا،بعض اوقات طلبہ پہلے سے طے کرکے کوشش کرتے کہ آج ہم مولانا کو پہلے سلام کریں گے لیکن اس کوشش میں کامیاب نہ ہوتے۔(البلاغ مفتی اعظم نمبر ج۱۔ ص۷۸ ۲)