نمونے کے انسان |
زرگان د |
|
ذوق مطالعہ : مفتی شفیع عثمانی صاحب نے فرمایا کہ: حضرت شاہ صاحب(علامہ انور شاہ صاحب) کے فیض صحبت کی بنا پر ہم لوگوں کو بھی مطالعہ کتب کی ایک دھن سی لگ گئی تھی،فراغت کے بعد تقریباً ایک سال تو میں نے اس طرح گزارا کہ چند اسباق پڑھانے کے بعد کتب بینی کے سوا کوئی کام نہ تھا،دوپہر کو دارالعلوم دیوبند کے کتب خانے میں داخل ہوتا، ناظم کتب خانہ بعض اوقات باہر سے تالا لگا کر چلے جاتے اور میں اندر کتابوں کا مطالعہ کرتا رہتا۔ (البلاغ مفتی اعظم نمبر۔ج۔ص۲۶۰) فرماتے تھے کہ دارالعلوم دیوبند کے کتب خانے میں کوئی کتاب ایسی نہ تھی جو میری نظر سے نہ گزری ہو،اگر کسی کتاب کو میں نے(مفتی شفیع صاحب)پورا نہیں پڑھا تو کم از کم اس کی ورق گردانی ضرور کی تھی،یہاں تک کہ تمام علوم وفنون کی الماریاں ختم ہوگئیں تو میں نے ان الماریوں کا رخ کیا جنہیں کبھی کوئی شخص ہاتھ نہیں لگاتا تھا،یہ اشتات(متفرقات)کی الماریاں تھیں،اور جن کتابوں کوکسی خاص علم وفن سے وابستہ کرنا ناظم کتب خانہ کو مشکل معلوم ہوتا تھا،وہ ان الماریوں میں رکھ دی جاتی تھیں،ان کتابوں میں چونکہ موضوع کے لحاظ سے کوئی ترتیب نہ تھی،اس لئے اس جنگل میں داخل ہونا لوگ بے سود سمجھتے تھے کہ یہاں سے کوئی گوہر مطلوب حاصل کرنا ’’تریاق از عراق‘‘ سے کم نہ تھا،لیکن جب ساری الماری ختم ہوگئیں تو میں نے اشتات کے اس جنگل کو بھی کھنگالا،اور اس کے نتیجے میں ایسی ایسی کتابوں تک میری رسائی ہوئی جو گوشۂ گمنامی میں ہونے کے باعث قابل استفادہ نہ رہی تھیں۔(البلاغ مفتی اعظم نمبر۔ج۱۔ص۳۳۷)حفظ قرآن : حضرت تھانوی نے فرمایا کہ حضرت مولانا قاسم صاحب جہاز میں روز ایک پارہ حفظ کرکے سناتے تھے،اور آہستہ آہستہ یاد کرتے تھے،کسی کو پتہ بھی نہ چلا،یہ حصرت مولانا کی کرامت ہے، ایک شخص نے عرض کیا کہ مولانا خلیل احمد صاحب علیہ الرحمہ نے رمضان شریف میں آدھا قرآن شریف حفظ کرلیاتھا،تبسم سے فرمایا کہ چونکہ وہ مولانا سے آدھے تھے ،اس لئے کرامت آدھی ہوگئی۔(ارواح ثلاثہ۔ص۲۱۲)