نمونے کے انسان |
زرگان د |
|
ثوان کا معمہ: طالب علمی کا دور بھی عجیب دور ہے، کبھی کسی جگہ آدمی اٹکتاہے تو دیرتک اٹکارہتاہے اور جب نکل جاتاہے تو سوچتاہے کہ یہ کون سی اٹکنے کی جگہ تھی، میں مجلہ الحج پڑھ رہاتھا ،رات کے بارہ بجے کاعمل تھا اس میں ایک لفظ آیا’’ثوان‘‘ اس پر اٹک گیا ،پہلے سیاق وسباق سے سمجھنے کی کوشش کی مگر نہیں حل ہوا،پھر لغت کی کتابیں الٹنی پلٹنی شروع کیں،مگر مادہ ہی نہیں سمجھ میںآرہاتھا کافی دیر تک جھک مارتا رہا، لغت کی ہر کتاب دیکھ لی لیکن کچھ سراغ نہ ملا، مادے میں جو جو احتمالات تھے سب ڈھونڈ لئے مگر اندھیرا ،خیال ہواکہ پہلا حرف ثاء ہے پوراباب پڑھ ڈالوں ،شایدکہیں مل جائے ،اس کے تحت ابتدائی کلمات مفردہ سب پر نگاہ دوڑائی لیکن اندھیراہی رہا،پھر سوچاکہ مفرد کی جمع جو درمیان سطرمیں لکھی رہتی ہے اس پر محنت کروں اس کے لئے لغت کی سب سے مختصر کتاب لغات جدیدہ جو حضرت مولاناسید سلیمان ندوی علیہ الرحمہ کی مرتب کردہ ہے دیکھنی شروع کی، اس میں لفظ ’’ثوان‘‘ نظر آگیا،معلوم ہواکہ وہ ثانیہ کی جمع ہے جس کے معنی سکنڈ کے ہیں اب طبیعت کو انشراح ہوگیا، اس کاوش میں مجھے ڈیڑھ گھنٹے لگ گئے، آج یہ بہت معمولی بات معلوم ہوتی ہے ، مگر اس وقت یہ مسئلہ بہت اہم اورمشکل تھا۔تجلی کا عکس: ایک مرتبہ ایک مسئلہ قطبی میں الجھ گیاتھا،میں تین دن تک اس پر غور کرتا رہا،اس وقت قطبی کی کوئی شرح اردو میں نہ تھی،عربی میں اس کا ایک حاشیہ قطبی پر تھا،اسے دیکھا مگر الجھن دور نہ ہوئی،میں سوال کرنے سے بہت شرماتا تھا ،حالانکہ یہ بات حصول علم کے راستے میںمضر ہے، حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے کسی نے پوچھا تھا کہ آپ کواتنا زبردست علم کیونکر حاصل ہوا، جواب میں آپ نے فرمایابلسان سئول وقلب عقول ، بہت پوچھنے والی زبان، اور بہت سمجھنے والی ذہانت سے !یہ بات مجھے اس وقت بھی معلوم تھی مگر طبیعت کا شرمیلاپن غالب تھا اوراب بھی غالب ہے، مجھے کچھ پوچھنے میں ہچکچاہٹ ہوتی ہے، اس وقت اس کی تاویل میں میں یہ سوچا کرتاتھا کہ مصنف نے اپنی حدتک سمجھاکر لکھنے کی کوشش کی ہے،پھرحاشیہ اور شرح والوں نے اسے مزید صاف کیاہے،تیسرے نمبر پر استاذنے محنت کی اور اس مقام کو حل کیا ، اتنے کے بعد بھی میں نہ