نمونے کے انسان |
زرگان د |
|
دوایک تالاب تھے جن میںلوگ نہاتے اور کپڑے دھوتے ، سینچائی کے لئے صرف بارش کا سہارا ہوتا، مگر بارش مطلق نہیں ہورہی تھی ، اس لئے خلقت پریشان تھی ، میں نے نمازِ استسقاء اور دعاء و استغفار کے لئے کئی مرتبہ لوگوں کو اکٹھا کیا ، مگر بظاہر ہر اجتماع ناکام رہا اور دعا نامراد رہی ۔ بارش نہ ہونی تھی اور نہ ہوئی ، جن لوگوں کے دلوں میں بدگمانی کی خلش تھی انھوں نے یہ کہنا شروع کیا کہ فلاں مولوی کی نحوست سے بارش بند ہے ، اس افواہ سے مجھے قلبی صدمہ ہوا ، مگر قرآن کریم کی ان آیات سے تسکین ہوتی جن میں انبیاء کی قوموں نے انبیاء کو ملزم گردانا تھا اور اﷲ نے ان کی تردید فرمائی ہے ۔ عشرۂ اخیرہ میں اس خاکسار کا قیام مرکٹّا میں ہوا، بلکہ مسجد میں اعتکاف کیا اور وعظ و نصیحت میں مزید سرگرمی پیدا ہوئی ، رمضان کا آخری دن آتے آتے اﷲ کا خاص فضل یہ ہوا کہ پورے علاقے میں اتحاد کی صورت پیدا ہوگئی ، صرف ایک گھرانہ بلکہ اس گھرانے کا ایک فرد جو خاصا بااثر تھا وحدتِ کلمہ کی اس صورت سے بدکتا رہا ، میں نے عید کے دن فجرکی نماز کے فوراً بعد اس کے گھر جاکر اس موضوع پر گفتگو کی ، وہ شخص تھوڑی دیر میں موم ہوگیا ، اور عید کی نماز آٹھوں گاؤں نے ایک جگہ جمع ہوکر ادا کی ، اس یکجائی کا منظر بھی قابل دیدتھا ، سب کے چہروں پر خوشی کی لہرتھی ، پرانی رنجشیں یکلخت کافور ہوگئیں ، کسی کو کسی سے گلہ نہ رہا، جب تمام لوگ خوشی خوشی ایک جگہ اکٹھا ہوگئے اور صفیں درست ہونے لگیں تو اچانک بادِ رحمت چلنے لگی ، پانی لئے ہوئے گھنگھور گھٹائیں آسمان پر امنڈنے لگیں ، تمام لوگوں کی آنکھیں بارانِ رحمت کے آثار دیکھ کر خوشی سے چمکنے لگیں ۔ میں نے اعلان کیا کہ اﷲ کی رحمت برسنا ہی چاہتی ہے ، مگر کوئی فرد یہاں سے ہرگز نہ ہٹے ، اس اعلان کے بعد نماز شروع ہوئی،ایک رکعت کے بعد موسلادھار بارش شروع ہوگئی ، اتنا پانی برسا کہ دوسری رکعت کا سجدہ لوگوں نے پانی میں کیا، بارش ہورہی تھی اور امام نے عیدکا خطبہ پڑھا ، ہرفرد شرابور ہوکر گھرلوٹا ، دن بھر بارش ہوتی رہی اور گرمی کی شدت یکایک کافور ہوگئی ، اور قحط سالی کا منظر شادابی اور خوشحالی سے بدل گیا ، کسان نہال ہوگئے اور سب نے محسوس کیا کہ یہ قلبی اتحاد کی برکت ہے ، عید اچھی گزرگئی ، دین داری کارنگ جمنے لگا ، تعلیم کا شوق بھی بڑھا۔جنیہ کا قصہ: دمکہ میں قیام کے دوران عید کے دن شام کے وقت یہ بات زیر بحث آئی کہ دس دن