نمونے کے انسان |
زرگان د |
|
جس پر بعض لوگ دارالعلوم کراچی کے دارالافتا میں کام کرنے والے فتوی نویس مولوی صاحب کو ملامت کرنے لگے کہ تمہارے فتوے سے بریلوی مفتی چھوٹ گیا،گویا اچھا نہ ہوا،حضرت مفتی شفیع صاحب علیہ الرحمہ بحیثیت امت کے سوچا کرتے تھے،آپ کو ان لوگوں کی ملامت کا پتہ چلا تو فرمایا کہ اچھا ہوا،ہمارے دارالافتا کے فتوی کی وجہ سے فلاں مفتی صاحب رہا ہوگئے،کیوںکہ حکومت نے ان کو اس لئے گرفتار نہیں کیا تھا کہ وہ بریلوی مفتی ہیں،بلکہ اس لئے گرفتار کیا تھا کہ وہ مفتی ہیں، اور ان کا فتوی حکومت کی منشا کے خلاف پڑگیا تھا،اگرآج ان کو گرفتار کیا ہے تو کل ہماری باری بھی آسکتی ہے۔(البلاغ مفتی اعظم نمبر۔ج۲۔ص۹۲۴)امت پر شفقت : حضرت مفتی شفیع صاحب فرمایا کرتے تھے کہ: ’’آج کل لوگوں میں فکر آخرت نہیں ہے،جو کام کرنا طے کرچکے ہیں اس کو ضرور کریں گے،نہ فتوی معلوم کرکے باز آتے ہیں نہ خود مسئلہ جان کر گناہ چھوڑتے ہیں،اس لئے مسائل مجتہد فیہامیں مفتی حضرات متعدد اقوال سے جواز کے پہلو پر فتوی دیں تو عوام کے حق میں بہتر ہے، کیوںکہ جواز معلوم کرکے عمل کریں گے تو گناہ گار نہ ہوں گے،اور دین سے اپنا لگائو سمجھیں گے، اور اگر ان کو ناجائز کا فتوی دیدیا تب بھی وہی کریں گے جو طے کرچکے ہیں،البتہ اس صورت میں گناہ جانتے ہوئے شریعت کے باغی ہوکر عمل کریں گے،جو ان کے دین وایمان کے لئے نہایت مضر ہوگا۔(یہ بات انہیں مسائل وامور سے متعلق ہے جن کے بارے میں کتاب وسنت میں کوئی نص نہیں ہے،جو قرآن وحدیث کے بیان کردہ اصول کے اعتبار سے ممنوع نہیں ہیں،اور جو متفق علیہ ممنوع نہ ہوں)۔(البلاغ مفتی اعظم نمبر۔ج۲۔ص۹۲۵)شفقت کا انداز: ایک دفعہ عرض کیا کہ حضرت مرکزی حکومت اپنے ملازمین کو آمد ورفت کی سہولت کی خاطر سائیکل خریدنے کے لئے ایک سو بیس روپئے قرض دیتی ہے،اور بارہ مساوی قسطوں میں واپس لیتی ہے،لیکن اس میںقباحت یہ ہے کہ اس قرض کا سود بھی دینا پڑتا ہے،رقم کی ضرورت بھی شدید ہے،اب حضرت کا جو حکم ہو،یہ سن کر حضرت(مفتی شفیع صاحب) اٹھے اور اندر جاکر ایک