نمونے کے انسان |
زرگان د |
|
عالمانہ برتاؤ: سابق مہتمم دارالعلوم دیوبند حضرت مولانا حافظ محمد احمد صاحب (فرزند حضرت مولانا محمد قاسم ؒ) فرماتے ہیں کہ رامپور ضلع سہارن پور میں ایک خاندان حضرت نانوتوی کا سخت مخالف تھا، اورہمیشہ درپے آزاررہاکرتا تھا، اسی مخالف خاندان کے رکن دوبھائی تھے، جن سے حضرت نانوتوی کا بچپن سے میل جول تھا، اورحضرت کا دستور تھا کہ جب رامپور آپ کا جانا ہوتا، دونوں بھائیوں سے ملاقات کے لئے ضرور تشریف لے جاتے، اوروہ بھی حضرت سے ملنے حکیم ضیاء الدین صاحب (میزبان ودوست حضرت نانوتوی) کے مکان پر آتے، اس خاندان کے مفسدہ پردازیوں کے زمانہ میں بھی حضرت کی حالت نہ بدلی، حکیم ضیاء الدین صاحب کو ناگواری ہوتی کہ ان مفسدوں کے یہاں حضرت اب تشریف کیوں لے جاتے ہیں؟ آخر یہی تو وہ لوگ ہیں جنہوں نے حضرت پر بڑے بڑے الزامات لگائے، مگر زبان سے حکیم صاحب نے کبھی ذکر نہیں کیا، ایک مرتبہ حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی اورحضرت نانوتوی دونوں بزرگ رامپور میں اکٹھا ہوگئے، اور حضرت نانوتوی حسب عادت ان لوگوں کے پاس تشریف لے گئے، توحکیم صاحب نے مولانا گنگوہی سے ذراتیز لہجہ میں فرمایا کہ دیکھئے مولانا نانوتوی اب بھی وہاں جانا نہیں چھوڑے، حضرت گنگوہی مسکراتے رہے، جب حکیم صاحب کی تیزی بڑھتی گئی،تو مولانا گنگوہی نے ذرا مستعد ہوکر فرمایاکہ حکیم صاحب آپ کیا کہہ رہے ہیں؟ آپ ان کے قلب کی حالت ملاحظہ نہیں فرماتے، جس شخص کے قلب میں ایمان کی طرح یہ بات راسخ ہوچکی ہے کہ دنیا میں اس سے زیادہ ذلیل وخوار کوئی ہستی نہیں ہے، ایسے شخص کو آپ کس طرح کہیں جانے سے روک سکتے ہیں، اورکہیں چلے جانے سے ان پر کیا اثر ہوسکتا ہے۔(ارواح ثلاثہ۔ص۱۸۷)سادگی وپر کاری: حضرت نانوتوی کے شاگرد مولانا احمد حسن صاحب امرہوی کا بیان ہے کہ جب مباحثہ شاہجہاں پور طے ہوا، تو مولانا محمد قاسم صاحب بغیر کسی اطلاع کے تنہا بنفس نفیس شاہجہاں پور تشریف لے گئے، جب مولانا محمود حسن صاحب (شیخ الہند) نے سنا تو وہ بھی مولانا کے بعد تشریف لے گئے، اس کے بعد میں گیا، شاہجہاں پور میں مولانا محمود حسن صاحب سے میری ملاقات ہوئی،