نمونے کے انسان |
زرگان د |
|
اختلاف کی حدود وسعت قلب: حضرت مفتی محمد شفیع صاحب تحریر فرماتے ہیں کہ: ’’جس زمانے میں مرحوم(مولانا حافظ جلیل احمد صاحب ،حضرت حکیم الامت کے مخصوص اور ممتاز خلیفہ)اپنے اہل وعیال کے ساتھ تھانہ بھون میں مقیم تھے،آپ نے اپنی اہلیہ محترمہ کی وقف کردہ جائداد کے متعلق کچھ سوالات حضرت حکیم الامت قدس سرہ کی خدمت میں پیش کئے،جن کا جواب اس وقت کے مفتیٔ خانقاہ نے تحریر فرمایا مگر حضرت علیہ الرحمہ کو اس جواب پر اطمینان نہ ہوا اور اس پر کچھ اشکالات تحریر فرماکر اپنا جواب لکھا،اور ارشاد فرمایا اب یہ مجموعہ محمد شفیع کے پاس دیوبند بھیج دیا جائے کہ وہ جواب لکھے،میں نے مسئلہ میں جتنا غور وفکرکیا تو مجھے حضرت علیہ الرحمہ کی تحریر پر اطمینان اور شرح صدر نہیں ہوا بلکہ کچھ شبہات واشکالات پیش آئے،جن کو تحریر کرکے حضرت کی خدمت میں بھیج دیا،اور میرا جواب حضرت کے جواب سے مختلف ہوگیا،اور معاملہ اور زیادہ الجھ گیاتو مولاناحافظ جلیل احمد صاحب سے فرمادیا کہ خط وکتابت میں طول ہوگا،محمد شفیع کے تھانہ بھون آنے کا انتظار کرو،زبانی گفتگو سے بات طے کرلی جائے گی۔ جب احقر تھانہ بھون حاضر ہوا تو حضرت نے اس مسئلے پر گفتگو کے لئے ایک وقت مقرر فرمایا،اور کافی دیر تک مسئلے کے مختلف پہلووں پر بحث وگفتگو ہوتی رہی،مگر عجیب اتفاق یہ پیش آیا کہ اس زبانی گفتگو میں بھی کسی ایک صورت پر رائیں متفق نہ ہوسکیں،حضرت کے سامنے مجھ بے علم وعمل کی رائے ہی کیاتھی؟مگر حکم یہی تھا کہ جو کچھ رائے ہو اس کو پوری صفائی سے پیش کرو،اس میں ادب مانع نہ ہونا چاہئے،اس لئے اظہار رائے پر مجبور تھا،کچھ دیر کے بعد مجلس اس بات پر ختم ہوئی کہ دیر کافی ہوگئی ہے،اب پھر کسی روز اس مسئلے پر غور کریں گے۔ اب حافظہ رخصت ہوچکا ہے،پوری بات یاد نہیں،اتنا یاد ہے کہ اس کے بعد پھر تحریر کا