نمونے کے انسان |
زرگان د |
|
معاملہ نہایت آسانی سے کیونکر حل ہوا ؟ اس طرح حضرت مولانا لوگوں کی خدمت غائبانہ حاضرانہ دعاؤں کے ذریعہ کیا کرتے تھے ۔بخشش وعطیہ: ایک بار چند دوستوں کے ساتھ حضرت مولاناقاری صدیق صاحب کے یہاںحاضری ہوئی ، ان میں سے ایک صاحب نے راستے میں مجھ سے فرمائش کی کہ اگر حضرت آپ کو کچھ عنایت فرمائیں تو وہ مجھے دے دیجئے گا میں اسے بہ نیتِ برکت محفوظ رکھوں گا ۔ میں نے کہا وہ زمانہ چلا گیا ، اب میں آپ لوگوں کے خرچ پر جاتا ہوں تو حضرت کی طرف سے عطیہ کا سلسلہ بھی موقوف ہوگیا ہے ۔بات ختم ہو گئی ۔ حضرت کی خدمت میں حاضری ہوئی ، ہم لوگ ایک پرائیویٹ گاڑی سے گئے تھے ،یہ وہم بھی نہ تھا کہ حضرت کی طرف سے کچھ بخشش ہوگی،چوبیس گھنٹے قیام رہا ،جب حضرت سے رُخصت ہوکر گاڑی پر بیٹھ گئے اور گاڑی اسٹارٹ ہوگئی تو اچانک ایک صاحب دوڑے ہوئے آئے کہ حضرت بلارہے ہیں ۔ میں سوچنے لگا کہ کیا خاص بات ہے ، اتر کے تیزی سے گیا ، حضرت ایک طرف لوگوں سے کچھ فاصلہ پر تنہاکھڑے تھے، جیب میں ہاتھ ڈالا اور ۱۰۰؍ روپئے کا نوٹ نکال کر دینے لگے کہ اس سے گاڑی میں تیل ڈلوالیجئے گا ،میں نے معذرت کی کہ حضرت اس کی ضرورت نہیں ہے ، حضرت اصرار فرمارہے تھے اور میں معذرت کررہا تھا، حضرت نے فرمایا لے بھی لیجئے ،اس پر اچانک راستے والی بات یاد آئی جس کی مجھ سے فرمائش ہوئی تھے ، میری روح وجد میں آگئی ، اﷲ اکبر! کہاں کی بات کہاں تک آپہونچی؟میں نے جھٹ وہ نوٹ لے لیا اور اسی طرح لئے ہوئے ان صاحب کے حوالے کردیا کہ لیجئے آپ کی نیت وخواہش پوری ہوگئی ، خلاف توقع اور خلاف معمول حضرت نے یہ روپیہ ا ب کی بار عنایت فرمایا ہے ۔ حضرت کے یہاں بخشش وعطایا کے قصے چلتے ہی رہتے تھے ۔ نہ جانے کتنے لوگ اس کے شاہد ہوں گے ۔ حضرت اقدس کے قلب وروح میں حب مال یا حب جاہ کی کوئی گنجائش نہ تھی ۔تواضع وفروتنی: ہر کہ خدمت کرد اومخدوم شد! حضرت اقدس قاری صدیق صاحب نے زندگی بھر اپنے کو خادم بنائے رکھا ۔ اتنے عالی مرتبہ ہونے کے باوجود کبھی اس کا احساس نہیں ہواکہ وہ بھی کوئی مرتبہ