نمونے کے انسان |
زرگان د |
|
صاحب انہیں اس کمرے پر بھی لائے اور اندر اشارہ کرکے فرمایا کہ اس میں مفتی محمد شفیع صاحب سورہے ہیں۔ صدر صاحب کے جانے بعد جب مہتمم صاحب نے حضرت والد صاحب سے اس واقعے کا تذکرہ فرمایا تو آپ نے کہا کہ اگرچہ میں نے آپ سے یہ درخواست نہیں کی تھی کہ آپ انہیں میری اس انداز سے موجودگی جتائیں لیکن یہ اچھا ہوا ، انہیں معلوم توہو کہ ملک میں ایسے ’’کج دماغ لوگ‘‘ بھی موجود ہیں۔(البلاغ مفتی اعظم نمبر۔ج۱۔ص۴۳۱)ہمیں بھی تو کسی نے بگاڑا ہی ہے : ایک نوجوان حضرت حافظ ضامن شہید صاحب کی خدمت میں آتا تھا،حضرت کی برکت سے اس کی حالت کچھ بدلنے لگی،اس کے باپ نے حافظ صاحب سے شکایت کی کہ جب سے لڑکا آپ کے پاس آنے لگا ہے بگڑ گیا ہے،حافظ صاحب نے جوش میں فرمایا کہ ہم کو تو بگاڑنا ہی آتا ہے،ہمیں بھی تو کسی نے بگاڑا ہے،ہم کسی کو بلاتے تھوڑا ہی ہیں،جس کو سنورنا ہو وہ ہمارے پاس نہ آوے ،ہمیں تو بگاڑنا ہی آتا ہے۔(ارواح ثلاثہ۔ص۱۶۴)شان علم واستغنا : مولوی حبیب الرحمان صاحب دیوبندی نے فرمایا کہ منشی حمیدالدین صاحب فرماتے تھے کہ حضرت نانوتوی علیہ الرحمہ ایک بزرگ سے ملنے کے لئے ریاست رامپور تشریف لے گئے ، ساتھ مولانا احمد حسن صاحب اور منشی حمید الدین صاحب رحمۃ اللہ علیہما تھے،ریل نہ تھی،مرادآباد سے اس طرح چلے کہ خود حضرت پاپیادہ ہولئے،منشی صاحب کی بندوق اپنے کندھے پررکھ لی،اور بجبر منشی حمید الدین کو سواری پر بیٹھا دیا،جس نے پوچھا کہ کون ہیں؟فرمادیتے کہ منشی حمیدالدین رئیس سنبھل ہیں،گویا اپنے کو ایک ملازم کی حیثیت سے ظاہر کیا،اس لئے تاکہ خفیہ پہونچیں،جب رامپور پہونچے تو وہاں وارد وصادر کا نام،پورا پتہ وغیرہ داخلہ شہر کے وقت لکھاجاتا تھا،حضرت نے اپنا نام (تاریخی نام)خورشید حسن بتایا اور لکھادیا،اور ایک نہایت ہی غیر معروف سرائے میں مقیم ہوئے،اس میں بھی ایک کمرہ چھت پر لیا،یہ وہ زمانہ تھا کہ’’ تحذیرالناس ‘‘کے خلاف اہل بدعات میں ایک شور برپاتھا،مولانا کی تکفیریں تک ہورہی تھیں،حضرت کی غرض اس اخفا سے یہی تھی کہ