نمونے کے انسان |
زرگان د |
|
طالب علم نے نظر اٹھائی تو دیکھا کہ شاہزادہ دولہا بنا ہوا ساز وسامان سے مرصع ہاتھی پر بیٹھا ہوا ہے۔ طالب علم نے منہ بگاڑ کر کہا کہ بڑا آیا ہاتھی پر بیٹھنے والا ، اگر کافیہ (علم نحو کی مشہور کتاب) کاایک مسئلہ پوچھ دوں تو بغل جھانکنے لگے گا ، اور پھر اپنے مطالعہ کی محویت میں مستغرق ہوگیا ۔ پھر وہی طالب علم استاذ العلمائبنا ۔ مولانا رشید احمد گنگوہی اور مولانا محمد قاسم نانوتوی علیھما الرحمہ کے استاذ محترم مولانا مملوک العلی صاحب علیہ الرحمہ۔ یہ ایک مثال ہے ، تاریخ میں اس جیسی مثالیں قدم قدم پر ملتی ہیں ۔ آج بھی طالب علم جب مدرسے میں داخل ہوتا ہے تو اس کے سامنے طلب علم کے یہی تقاضے آجاتے ہیں ۔ اگر وہ ان تقاضوں کو پورا کرتا ہے تو دیر نہیں ہوتی کہ اﷲ تعالیٰ اسے گوہر مقصود سے نواز دیتے ہیں ، اور اگر وہ ان تقاضوں سے صرف نظر کرتا ہے تو بجھ کر رہ جاتا ہے۔سبق کے ناغہ کی گرانی: ’’تذکرۃ الرشید ‘‘ میں سرگروہ علمائے حق ، امام ربانی حضرت مولانا رشید احمد صاحب محدث گنگوہی قدس سرہٗ کی طالب علمی کے متعلق پڑھا تھا کہ دلی میں وہ اور حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی قدس سرہٗ اپنے استاذ مولانامملوک العلی نانوتو ی ؒ سے منطق کی مشہور کتاب ’’سلم العلوم ‘‘ پڑھ رہے تھے ۔ اس کا سبق صرف جمعہ کو ہوتا تھا کہ اور اوقات اور ایام میں دوسرے اسباق تھے ، ایک جمعہ کو مولانا پڑھانے بیٹھے ہی تھے کہ ایک بزرگ سیدھے سادھے تشریف لائے ، مولانا نے فرمایا کہ لو بھائی! حاجی میاں آگئے ، آج سبق نہیں ہوگا ۔ دونوں طالب علموں کو سبق کا ناغہ بہت گراں گزرا ، اس کے بعد بھی کسی جمعہ کو وہی صاحب تشریف لے آئے ، استاذ نے پھر ان کی وجہ سے سبق موقوف کردیا ۔ مولانا گنگوہی ؒ نے فرمایا یہ عجیب بزرگ ہیں ۔ ان کی و جہ سے ہمارے سبق کا ناغہ ہوجاتا ہے ۔ یہ بزرگ حضرت حاجی امداد اﷲ صاحب مہاجر مکی نور اﷲ مرقدہٗ تھے ، اور یہ دونوں طلباء بعد میں انھیں کے مرید اور خلیفہ ہوئے ۔ لیکن سبق کا اتنا اہتمام تھا کہ ان کی بزرگی کے ادب واحترام کے باوجود ناغہ کی گرانی کو چھپا نہ سکے ۔