نمونے کے انسان |
زرگان د |
|
عالی ہمتی: خود مولانا محمد یحییٰ صاحب علیہ الرحمہ نے طالب علمی کے زمانے میں طے کیا کہ دہلی میں استاذ سے حدیث کی کتابیں نہیں پڑھنی ہے ، کیونکہ وہاں غیر مقلدیت کے اثرات پھیلے ہوئے تھے توچھ ماہ بستی نظام الدین میں بنگلہ والی مسجد میں کے ایک حجرے میں اس طرح روپوش ہوئے کہ قریبی لوگوں کو بھی اطلاع نہ ہوئی کہ یہ یہیں ہیں ، اس دوران انھوں نے شروح وحواشی کی مدد سے حدیث کی کتابیں مطالعہ کرڈالیں ، اور جب ان کا امتحان حضرت مولانا خلیل احمد صاحب محدث سہارن پوری نے لیا ، تو ان کا تاثر یہ تھا کہ اس طالب علم کا علم اساتذہ سے بھی بڑھا ہوا ہے ، پھر انھیں کی سفارش پر حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی نور اﷲ مرقدہٗ نے ضعف بصارت کے باعث دورۂ حدیث کے اسباق بند کردینے کے باوجود مولانا محمد یحییٰ صاحب کے لئے درس جاری فرمایا ۔ اور دو سال میں یہ درس پورا ہوا ۔ مولانا کی عالی ہمتی کا ظہور یہاں بھی ہوا کہ اس دو سال کے درس میں ایک حدیث کا بھی ناغہ نہیں ہوا ۔ اور حضرت کے درس کی اردو تقریریں عربی میں مرتب کیں ۔ آج بھی اگر طلبہ اپنے اندر عالی ہمتی پیدا کرلیں ، تو کوئی معنیٰ نہیں کہ محرومی کا شکار ہوں ، اورجو طلبہ اس پر کاربند ہیں ، وہ واقعی بلند رُتبہ پاتے ہیں ۔طالب علم کی قدر: حضرت مولانا فضل حق خیرآبادی کا قصہ بھی بہت عجیب ہے۔ یہ مولانا فضل حق ،ہدیہ سعیدیہ کے مصنف ، زبردست عالم ہیں ، منطق وفلسفہ اور ادب کے امام ہیں ، ان کے والد گرامی مولانافضل امام صاحب بھی بڑے عالم تھے ۔ منطق کی مشہور کتاب ’’مرقات‘‘ انھیں کی تصنیف ہے ، طلبہ پر بے حد شفقت فرماتے تھے ، ان کے ایک شاگرد مولانا غوث علی شاہ تھے ، بڑے آزاد مزاج اور دنیا جہاں کے سیاح۔ وہ بیان کرتے ہیں کہ جب ہم رامپور گئے تو مولانا فضل حق صاحب سے ملاقات ہوئی ، ایک روز پچھلی باتوں کا ذکر آگیا ، اپنے والد بزرگوار (مولانافضل امام صاحب)کو یاد کرکے روتے رہے ، ہم نے کہا ،مولوی صاحب !آپ کو وہ دن بھی یاد ہے کہ مولوی صاحب نے تھپڑ مارا تھا اور آپ کی دستارِ فضیلت دور جاگری تھی ، ہنسنے لگے اور فرمایا کہ خوب یاد ہے وہ عجیب زمانہ تھا ، اور وہ قصہ اس طرح تھا کہ مولانافضل امام صاحب نے ایک طالب علم سے فرمایا