نمونے کے انسان |
زرگان د |
|
مولوی فضل امام صاحب خیرآبادی(والد ماجد مولانا فضل حق صاحب خیرآبادی)صدر امین ہوکر دہلی آئے ہوئے تھے،ایک دن وہ بھی بیٹھے ہوئے تھے،اور سبق ہورہا تھا،وہ اس حیرت انگیز سبق کو دیکھ کر متعجب ہورہے تھے،اتفاقاً شاہ صاحب اثناء سبق میں کسی ضرورت سے اٹھے تو انہوں نے کہا کہ صاحبزادے!کیوں مصنف کی روح کو تکلیف دیتے ہو؟وہ بپاسِ ادب چپ ہورہے،لیکن شاہ صاحب آگئے،اور انہوں نے سن لیا،فرمایا کہ مولوی صاحب اس لڑکے سے کچھ ہوچھئے تو اس کا حال معلوم ہو،پہلے تو مولوی فضل امام نے گریز کیا،لیکن آخر انہوں نے ایک مسئلہ الافق المبین کا پوچھا،مولانا اسماعیل صاحب نے نہایت شائستگی سے جواب دیا،پھر انہوں نے اس کا رد کیا،پھر انہوں نے جواب دیا،اس ردوقدح کی نوبت یہاں تک پہونچی کہ مولوی صاحب مولانا اسماعیل صاحب کی پیچیدہ تقریر کا غور کرکے جواب دینے لگے،اس وقت خاموش ہوئے۔(کاروان ایمان عزیمت۔ص۱۸)نازک خیالیاں : ایک ولایتی طالب علم خیالی پڑھنے کی غرض سے ہندوستان آیا،یہاں اس نے پوچھا کہ کون سب سے زیادہ ذہین اور ذکی ہے؟معلوم ہوا کہ مولانا اسماعیل صاحب ہیں،ان کے پاس آیا اور استدعا کی،بیشتر انہوں نے فرصت نہ ہونے کا حیلہ کیا،آخرالامر جب اس نے زیادہ مجبور کیا تو فرمایا:اچھا فرصت کے وقت۔اس نے بغل سے نکال کرایک کتاب دی،انہوں پوچھا یہ کیا ہے؟ اس نے کہا کہ خیالی کا ’’حاشیہ عبدالحکیم ‘‘ہے،آپ نے کہا کہ یہ کیوں یہاں چھوڑے جاتے ہو؟اس نے کہا کہ بے عبدالحکیم کے خیالی حل نہیں ہوتی،اس پر مولانا نے فرمایا کہ بے چارہ عبدالحکیم کیا ہے؟ جو میرے خیالوں میں باتیں آتی ہیں وہ عبدالحکیم کے خیالوں سے بدرجہا بہتر ہیں،اس نے کتاب تو اٹھائی لیکن بہت ہی بددل ہوا کہ جب ان کی یہ کیفیت ہے کہ عبدالحکیم کو کچھ نہیں سمجھتے تو خیالی کو خاک سمجھتے ہوں گے،لیکن چونکہ صرف خیالی ہی کی غرض سے اس نے اتنی مسافت طے کی تھی،اس لئے ٹھہر گیا،اور وقت مقررہ پر آیا،جب سبق شروع ہوا تو اس کو معلوم ہوا کہ واقعی ان کی نازک خیالیوں کے سامنے عبدالحکیم کوئی چیز نہیں ہے۔(کاروان ایمان وعزیمت۔ص۱۹)