نمونے کے انسان |
زرگان د |
|
وفاقہ کش ! ان کی خدمت میں ایک رئیس زادہ سبق پڑھا کرتے تھے ،ا یک روز صاحبزادے درس کے لئے حاضر ہوئے تو استاذ کے چہرے پر ضعف ونقاہت کے آثار نمایاں پائے ، سمجھ گئے کہ کئی وقتوں کا فاقہ ہے، کھانا نہیں کھایا ہے، چہرے کی زردی فاقہ کی وجہ سے ہے ، عرض کیا آج سبق پڑھنے کو جی نہیں چاہتا ، اگر چھٹی کردیں تو مہربانی ہوگی، یہاں صورت حال یہ تھی کہ آواز بھی پورے طور سے نہ نکل سکتی تھی، فوراً منظور فرمالیا ۔ صاحبزادے گھر گئے اور عمدہ کھانے پکوائے اورخوان میں سجاکر خود اپنے سرپر رکھا اور لے کر حاضر خدمت ہوئے کہ تناول فرمالیں ، استاذ بہت خوش ہوئے اور دعائیں دیں ، مگر کھانے سے یہ کہہ کر معذرت کردی کہ تم کو میرے فاقہ کا اندازہ ہوگیا تھا ، جب تم یہاں سے رُخصت ہوئے ہو، اسی وقت میں سمجھ گیا تھا کہ تم ضرور کھانا لاؤگے ، اس کے بعد میری طبیعت میں انتظارسا پیدا ہوگیا تھا ، اسی کانام’’ اِشراف ‘‘ہے، اور حدیث میں اِشرافِ نفس کے بعد جو کچھ ملے اس کے قبول کرنے سے ممانعت وارد ہے ، اس لئے باوجود سخت ضرورت کے معذور ہوں۔ اب صاحبزادے کی دانائی ملاحظہ فرمائیے ، اصرار بالکل نہیں کیا ، چپکے سے خوان اٹھایااور چل دیئے ۔ استاذ نے تو یہی خیال کیا کہ واپس لے گئے ، لیکن تھوڑی دیر کے بعد دیکھتے کیا ہیں کہ خوان لئے ہوئے پھر چلے آرہے ہیں، آکر نہایت لجاجت سے عرض کیا کہ حضرت اب تو انتظار ختم ہوگیا تھا ، اب قبول فرمالیجئے ، اب آپ خود سمجھ سکتے ہیں کہ ان بزرگ کو کیسی مسرت ہوئی ہوگی ، اور دل کی گہرائیوں سے کتنی دعائیں نکلی ہوں گی اور کیا ان دعاؤں اور قبولیت کے درمیان کوئی حجاب رہا ہوگا؟ سبحان اﷲ ! اسے دانائی کہتے ہیں ۔خاک ڈالو لاکھ روپئے پر: حضرت مولانافضل رحمن صاحب گنج مرادآبادی ایک مرتبہ مجلس میں عشق الٰہی کا بیان نہایت جوش وخروش کے ساتھ کررہے تھے ،طبیعت پر خوشی ونشاط کا اثر ظاہر ہورہاتھا ،موقع پا کر ایک صاحب نے عرض کیا حضرت نواب صاحب رامپور فرمارہے تھے کہ ہمارے یہاں اس وقت کے تمام اہل فضل وکمال تشریف لاچکے ہیں ،بس ایک حضرت مولانا فضل رحمن صاحب ابھی تک تشریف نہیں لائے ہیں اگر وہ کبھی قدم رنجہ فرمائیں تو انھیں ایک لاکھ روپیہ نذر میں پیش کرونگا ۔ حضرت نے بڑی بے نیازی کے ساتھ فرمایا کہ خاک ڈالو لاکھ روپئے پر، اور داستان عشق ومحبت سنو۔(حیات مصلح الامت ۳۰۹)