نمونے کے انسان |
زرگان د |
|
چادر تان کر سورہی ہے اور مطمئن ہے کہ کوئی مسئلہ پیش آئے گا ، تو محمد سے پوچھ لیں گے ، اگر محمد بھی سوجائے تو پھر کیا ہوگا ؟ طلبہ کا طرۂ امتیاز یہی ہے کہ انھیں اپنی تعلیم کے علاوہ کسی اور چیز کی فکر نہ ہو ، ضروریات زندگی کا انتظام تو غیبی نظام کے تحت ہوتا رہتا ہے ۔ حضرت مولانا عبد القادر رائے پوریؒ کے ملفوظات میں ایک واقعہ ملتا ہے کہ ایک طالب علم حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی قدس سرہٗ کی خدمت میں طلب علم کیلئے حاضر ہوا ۔ آپ نے فرمایا کہ ہمارے پاس طالب علموں کے کھانے پینے کا جو انتظام ہے وہ پورا ہوگیا ہے ۔ اب کوئی گنجائش اس میں نہیں ہے ، اس نے کہا حضرت ! مجھے پڑھنا ہے ، آپ مجھے درس میں داخل فرمالیں ، رہا کھانے کا مسئلہ تو اﷲ تعالیٰ کے ذمے ہے ، وہ دیں گے تو کھالوں گا اور نہیں دیں گے تو کہہ دوں گا آپ کی دی ہوئی جان حاضر ہے ، واپس لے لیجئے ۔ حضرت گنگوہی ؒ بہت متاثر ہوئے اور اسے پڑھانا منظور فرمالیا ، پھر اسی مجلس میں اسی وقت اﷲ تعالیٰ کی طرف سے ، اس کی ضروریات کا انتظام بھی ہوگیا ۔طالب علم کی شان: علوم نبوت کے طلبہ کی ایک تابناک تاریخ ہے ، ان کے واقعات تاریخ اور تذکروں کے صفحات پر جگمگا رہے ہیں ، اس وقت مجھے یہ تاریخ نہیں دہرانی ہے ، بس اجمالاً اشارہ کرنا ہے کہ قرون اولیٰ سے قرون متاخرہ تک طالبان علم کے قافلے آپ کو ہر اس جگہ خیمہ زن ملیں گے جہاں علم کا کوئی چشمہ جاری ہو ، پھر ان کی یکسوئی ، ان کا انہماک ، دنیا سے ان کی بے نیازی سب کا ایک نرالا انداز ہوتا۔دلی میں کچھ عرصہ پہلے جب کہ مغلیہ سلطنت کا چراغ ٹمٹما رہا تھا ہم ایک طالب علم کو پاتے ہیں جو نانوتہ سے تحصیل علم کے لئے دارالسلطنت میں آیا تھا ، وہ طالب علم غریب تھا ، اس کے پاس اتنے پیسے نہ تھے کہ تیل خرید کر چراغ جلاتا ، اور اس کی روشنی میں راتوں کو پڑھتا ، وہ اپنی کتاب لے کر سڑک پر نکل آتا ، سرکاری لالٹین کے نیچے کھڑا ہوکر مطالعہ میں مصروف ہوجاتا اور اسی حالت میں رات گزار دیتا ، ایک دن وہ حسب معمول اپنی کتاب لئے کھڑا تھا کہ کسی مغل شاہزادے کا جلوس نکلا ۔ آگے آگے مشعل بردار مشعلیں لئے چل رہے تھے ، اس طالب علم کو روشنی فراواں ملی تو بہت خوش ہوا،اسی روشنی کے ساتھ چلنے لگا کہ مطالعہ میں آسانی ہوگی، شاہزادے کے حاشیہ برداروںمیں کسی نے اس کو دھکا دیا کہ ہٹو ، دیکھو شاہزادے کی سواری آرہی ہے ۔ اس غریب