نمونے کے انسان |
زرگان د |
|
احتیاط وتقوی للٰہیت کے معنی: حضرت حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانوی جب کانپور میں مدرس تھے، انہوں نے مدرسہ کے جلسہ کے موقع پر اپنے استاذ حضرت شیخ الہند کو بھی مدعو کیا، کانپور میں بعض اہل علم معقولات کی مہارت میں مشہور تھے، اورکچھ بدعات کی طرف مائل تھے، ادھر علماء دیوبند کی توجہ چونکہ خالص دینی علوم کی طرف رہتی تھی، اس لئے یہ حضرات یوں سمجھتے تھے کہ علماء دیوبند کو معقولات میں کوئی درک نہیں، حضرت تھانوی اس وقت جوان تھے، ان کے دل میں حضرت شیخ الہند کے بلانے کا داعیہ اس لئے تھا کہ حضرت کی تقریر ہوگی تو کانپور کے علماء کو پتہ چلے گا کہ علماء دیوبند کا علمی مقام کیا ہے؟ اوروہ معقولات میں کیسی دستگاہ رکھتے ہیں، چنانچہ جلسہ منعقد ہوا، اورحضرت شیخ الہند کی تقریر شروع ہوئی، حسن اتفاق کہ تقریر کے دوران کوئی معقولی مسئلہ زیر بحث آگیا، اس وقت تک وہ علماء جن کو حضرت تھانوی ، حضرت شیخ الہند کی تقریر سنانا چاہتے تھے، جلسہ میں نہیں آئے تھے، جب حضرت کی تقریر شباب پر پہونچی اورمعقولی مسئلہ کا انتہائی فاضلانہ بیان ہونے لگا، تو وہ علماء جن کا حضرت تھانوی کو انتظار تھا، تشریف لائے، حضرت تھانوی اس موقع پر بہت مسرور ہوئے، کہ اب ان حضرات کو حضرت شیخ الہند کے علمی مقام کا اندازہ ہوجائے گا، لیکن ہوا یہ کہ جونہی حضرت شیخ الہند نے ان علماء کو دیکھاتقریر کو مختصر کرکے فوراً ختم کردیا، اوربیٹھ گئے، حضرت مولانا فخرالحسن صاحب گنگوہی موجود تھے، انہوں نے یہ دیکھا تو تعجب سے کہا کہ حضرت! اب تو تقریر کا وقت آیا تھا،آپ بیٹھ کیوں گئے، حضرت شیخ الہند نے جواب دیا ، ہاں دراصل یہی خیال مجھ کو بھی آگیا تھا، مطلب یہ کہ اب تک تقریر نیک نیتی کے ساتھ خالص اللہ کے لئے ہورہی تھی، لیکن یہ خیال آنے کے بعد اپنا علم جتانے کے لئے ہوتی، اس لئے روک دیا۔ (البلاغ مفتی اعظم نمبر۔ج۱۔ص۲۳۱)