نمونے کے انسان |
زرگان د |
|
ایک بار اپنے پیر ومرشد حضرت مولانا منیر الدین صاحب علیہ الرحمہ کی خدمت میں حاضر تھا ، ان کے یہاں بھی کسی تقریب سے ذریعۂ معاش کا ذکر آیا، میں نے سر جھکا کر عرض کیا کہ اس سلسلے میں مَیں وعدۂ الٰہی پر مطمئن ہوں ، یہ سنتے ہی حضرت کی آنکھوں میں آنسو بھر آئے،اور بہت تحسین کی اور بہت دعائیں دیں۔تنخواہ کا معاملہ: میسور کے ابتدائی ایام میرے لئے مالی لحاظ سے بہت سخت تھے ، گھر سے جو کچھ رقم قدرے قلیل لے کر آیا تھا ، وہ امروہہ میں قیام کے دوران ہی ختم ہوگئی تھی ، میسور کے لئے راستے کا کرایہ اور خرچ جو کچھ ملاتھا وہ میسور پہونچتے پہونچتے ختم ہوگیا ۔ تنخواہ ایک ماہ کے بعد ملنے والی تھی ، درمیان میں کسی نے پوچھا نہیں ، میری غیرت نے سوال کرنے کی بات تو الگ، تذکرہ کرنے کی اجازت نہ دی ، اب نہ کپڑا دھونے کے لئے صابن ،نہ گھر یاامروہہ خط لکھنے کے لئے پیسہ! مگر میں پیشانی پر شکن لائے بغیر مہینہ ختم ہونے کی مدت بخوشی گزار لے گیا، مہینہ ختم ہونے پر جب تنخواہ ملنے کا وقت آیا تو مسجد کے سکریٹری کے۔ نذیر احمد صاحب اور دو ممبران ابوبکر سیٹھ اور اقبال سیٹھ صاحبان تشریف لائے،ان حضرات سے اتنی مدت میں ذرا بے تکلفی ہوگئی تھی ، ابوبکر سیٹھ نے معذرت کے لہجے میں کہنا شروع کیا کہ مولانا عبد الحی صاحب سے آپ کی تنخواہ کے متعلق جو گفتگو ہوئی تھی ، اس میں طے یہ ہوا تھا کہ آپ کی تنخواہ ڈھائی سو ماہانہ ہوگی ، مگر ہم لوگوں کو محسوس ہوتا ہے کہ اس کو ہم نباہ نہ پائیں گے ، اس لئے طے ہوا ہے کہ آپ کی تنخواہ دو سوروپئے ہو۔ میں نے عرض کیا کہ تنخواہ کی بات چونکہ مجھ سے نہیں ہوئی تھی ، اس لئے اس معذرت کا محل میں نہیں ہوں ، مولانا ہیں ، آپ ان سے بات کرلیں ، رہا میرا معاملہ تو وہ یہ ہے کہ نہ مجھے تنخواہ کی کسی مقدار کا مطالبہ ہے اور نہ خود تنخواہ کا مطالبہ ہے ، مجھے آپ حضرات نے کام کرنے کا موقع دیا ہے ، اس کے لئے میں شکرگزار ہوں، مجھے کام کرنے دیجئے ، اس کے بعد آپ کی طرف سے جو کچھ مل جائے گا میںا سے عطیۂ الٰہی سمجھ کر قبول کرلوں گا ، مجھے اس کا بھی انتظار نہ رہے گا کہ آپ نے مولانا سے بات کی یا نہیں؟ اسے سن کر وہ لوگ بہت خوش ہوئے ، اور فوراً دوسو روپئے مجھے دئے ، میں یہ سمجھ کر کہ یہ دوسوروپئے بھی میری حیثیت سے بڑھ کر ہیں ، میں نے بخوشی قبول کرلئے ، اس طرح