نمونے کے انسان |
زرگان د |
|
نہیں؟ہر چند کہ غبار سے دل صاف ہے لیکن شیطان تمہیں یہ سمجھا سکتا تھا کہ(نعوذ باللہ)ماموں اچھے آم خود کھاگئے اور گلے سڑے مجھے بھیج دئیے۔(البلاغ مفتی اعظم نمبر۔ج۲۔ص۱۰۷۷)رشتہ کی ایسی کی تیسی: حافظ محمد ضامن علیہ الرحمہ اپنے مرشد حضرت میاں جی نور محمد صاحب کے ہمراہ ان کا جوتہ بغل میں لے کر اور توبرہ گردن میں ڈال کر جھن جھانہ جاتے تھے،اور ان کے صاحبزادے کی سسرال بھی وہیں تھی،لوگوں نے عرض کیا کہ اس حالت میں جانا مناسب نہیں ،وہ لوگ حقیر سمجھ کر کہیں رشتہ نہ توڑ ڈالیں،حافظ صاحب نے فرمایا کہ’’رشتہ کی ایسی کی تیسی(حافظ صاحب ظریف تھے)میں جانے میں اپنی سعادت نہیں چھوڑوںگا۔(ارواح ثلاثہ۔ص۱۶۴)خانقاہ کا ادب: خان صاحب نے فرمایا کہ ’’حضرت گنگوہی علیہ الرحمہ نے خود مجھ سے فرمایا کہ جب میں ابتدائً گنگوہ کی خانقاہ (حضرت شیخ عبدالقدوس گنگوہی کی خانقاہ)میں آکر مقیم ہواہوں تو خانقاہ میں بول وبزار نہ کرتا تھا بلکہ باہر جنگل جاتا تھا کہ شیخ کی جگہ ہے،حتی کہ لیٹنے اور جوتے پہن کر چلنے کی بھی ہمت نہ ہوتی تھی۔(ارواح ثلاثہ۔۲۲۸)خدمت استاذ: ایک مرتبہ مولانا محمد قاسم صاحب نانوتوی کو دیوبند کا سفر درپیش تھا،برسات کا موسم تھا، اور مولانا کو بخار آرہا تھا،شیخ الہند نے مولانا کو گھوڑے پر بیٹھایا اور لگام اپنے ہاتھ میں لے لی،اور ایک ہاتھ سے رکاب کے قریب ہوکر حضرت کی کمر کو سہارادیا،اسی طرح بائیس میل کا راستہ پیدل طے کرکے دیوبند پہونچایا۔(تذکرہ شیخ الہند۔ص۱۰۹)حق استاذ: شروع میں یہ ادارہ (دارالعلوم کراچی)نانک واڑہ کی مختصر عمارت میں تھا لیکن کام جب وسیع ہوا اور جگہ تنگ پڑگئی تو وسیع جگہ کی ضرورت پڑی،اللہ تعالی نے ایک کشادہ جگہ کا انتظام فرمادیا اور آج کل جس جگہ اسلامیہ کالج ہے یہ جگہ اس وقت خالی تھی،دارالعلوم کے لئے الاٹ ہوچکی تھی، جگہ کشادہ اور شہر کے بہترین حصہ میں ہونے کے علاوہ شیخ الاسلام حضرت علامہ شبیر احمد عثمانی قدس سرہ کے مزار سے بالکل متصل تھی،اس لئے دارالعلوم کے لئے بے حد موزوں تھی،مفتی محمدشفیع