نمونے کے انسان |
زرگان د |
|
فرمایا کہ ارے مظفر!تجھے تقوی کی بدہضمی ہوگئی ہے،کیا نواب قطب الدین کا کھانا حرام ہے،انہوں نے عرض کیا ،حاشا وکلا،مجھے نواب صاحب پر اس قسم کی بدگمانی نہیں ہے،شاہ صاحب نے فرمایا کہ،پھر تو کیوں انکار کرتا ہے؟انہوں نے عرض کیا کہ حضرت!نواب صاحب نے آپ کی بھی دعوت کی ہے اور مولوی محمد یعقوب کی بھی اور ان کے علاوہ اور آدمیوں کی،اور آپ کو پالکی میں لے جائیں گے،اس میں بھی ضرور صرف ہوگا،اور نواب صاحب گو بگڑ گئے ہیں ،پھربھی نواب زادہ ہیں،وہ دعوت میں ضرور نوابانہ تکلف کریں گے،اور یہ بھی معلوم ہے کہ نواب صاحب مقروض بھی ہیں،پس یہ مقروض ہیں اور جتنا روپیہ وہ دعوت میںصرف کریں گے،وہ ان کی حاجت سے زائد بھی ہے تو یہ روپیہ وہ اپنے قرض میں کیوں نہیں دیتے؟ایسی حالت میں ان کا کھانا کراہت سے خالی نہیں،یہ بات شاہ صاحب کے ذہن میں بھی آگئی،اور فرمایا کہ میاں قطب الدین!اب ہم بھی تمہارے یہاں کھانا نہ کھائیں گے۔(ارواح ثلاثہ۔ص۱۵۴)کہاں تک نظر ہے؟: مولانا تھانوی نے فرمایا کہ مولانا مظفر حسین صاحب جب کسی سواری پر سوار ہوتے تو پہلے مالک کو سب چیزیں دکھلادیا کرتے تھے،اگر بعد میں کوئی خط بھی لاتا تو فرماتے بھائی!میں نے سارا اسباب مالک کو دکھایا ہے اور یہ اس میں سے نہیں ہے،لہٰذا تم مالک سے اجازت لے لو۔ (ارواح ثلاثہ۔ص۱۵۶)تقوی کے ساتھ دلداری: مولانا تھانوی نے فرمایا کہ مولانا مظفر حسین صاحب ایک مرتبہ دہلی سے بہلی میں سوار ہوکر اپنے وطن کاندھلہ کو تشریف لارہے تھے،بزرگوں کی عادت ہوتی ہے کہ ہر شخص سے اس کے مذاق کے موافق گفتگو کیاکرتے ہیں،اس بہلی والے سے بہلی کے متعلق کچھ پوچھنے لگے کہ بیلوں کو راتب کتنا دیتے ہو؟اور کیا بچت ہوجاتی ہے؟اس سلسلہ میں بہلوان کی زبان سے نکل گیا کہ یہ ایک رنڈی کی ہے،اور میں اس کا نوکرہوں،بھلا مولانا رنڈی کی گاڑی میں کیسے بیٹھ سکتے تھے؟اب مولانا کا دقیق تقوی دیکھئے،فوراً نہ اترے تاکہ اس کی دل شکنی نہ ہو،تقوی برتنا بھی ہرشخص کو نہیں آتا،ذرادیر کے بعدبولے کہ بہلی روک لینا،مجھے پیشاب کی ضرورت ہے،اس نے بہلی روکی،