نمونے کے انسان |
زرگان د |
|
’’تو بھائی میں کیا کروں؟جاکر کہو مولانا حبیب الرحمان صاحب(مہتمم دارالعلوم)سے، چنانچہ حضرت مولانا حبیب الرحمان صاحب کو اطلاع دی گئی اور انہوں نے کمرے کی مرمت وغیرہ کرادی۔(البلاغ مفتی اعظم نمبر۔ج۱۔ص۲۵۲)رات بھر کام کرتے رہے : قادیانیوں کے خلاف مقدمہ بہاول پور میں حضرت(علامہ انور )شاہ صاحب کا جو بیان ہوا،اس میں آپ نے علوم ومعارف کے دریا بہادئیے،اس بیان کے دوران حاضرین پر تو سکتہ طاری تھا ہیڈجج صاحب کی کیفیت بھی یہ تھی کہ وہ عالم حیرت میں حضرت کے چہرے کو تک رہے تھے،عدالت کی طرف سے بیان قلم بند کرنے والے لوگوں نے کچھ دیر تو حضرت کا ساتھ دیا، لیکن تھوڑی ہی دیرکے بعد جب حضرت شاہ صاحب اپنے اصلی رنگ پر آئے تو انہوں نے بھی قلم رکھ کر چہرے کو تکنا شروع کردیا،بیان ختم ہونے کے بعد جج صاحب نے کہا کہ بیان چونکہ قلم بند نہیں ہوسکا،اس لئے کل تحریری طور پر یہ بیان پیش کیاجائے۔ عدالت سے واپس ہونے کے بعد قیام گاہ پر یہ مسئلہ حضرت شاہ صاحب،حضرت مولانا مرتضیٰ حسن صاحب اور دوسرے بزرگوں کے سامنے آیا ،سوال یہ تھا کہ حضرت شاہ صاحب کی طرف سے یہ بیان کون لکھے؟بالآخر قرعہ فال حضرت والد صاحب (مفتی شفیع صاحب)کے نام نکلا،خود حضرت شاہ صاحب نے آپ کو مامور فرمایا کہ بیان آپ لکھئے،حضرت والد صاحب نے جواب میں عرض کیا کہ: ’’حضرت!آپ کی طرف سے آپ کے شایان شان بیان لکھنا تو میرے بس کا نہیں ، البتہ ضرورت پوری کرنے کے لئے تعمیل حکم کروںگا‘‘۔ حضرت نے فرمایا کہ’’ ہم دعا کریں گے،آپ اللہ کا نام لے کر شروع کردیجئے‘‘۔ حضرت والد صاحب فرماتے ہیں کہ دن کو تو لکھنے کا موقع نہیں ملا،رات کے وقت میں اپنے کمرے میں لکھنے کے لئے بیٹھا،اور ساری رات بیان لکھتا رہا،فجر کی اذان ہورہی تھی تو میں آخری سطور لکھ رہا تھا،عین اسی وقت برابر سے حضرت شاہ صاحب کے کمرے کا دروازہ کھلا،آپ اندر تشریف لائے اور پوچھا کہ کام کہاں تک پہونچا ہے؟احقر نے جواباً عرض کیا کہ بحمدللہ ابھی