نمونے کے انسان |
زرگان د |
|
عقیدت وحفظ حدود کا ایک نادرمجموعہ: ۱۳۹۲ھ میں والد صاحب(مفتی محمد شفیع) کو پہلی مرتبہ دل کاشدید دورہ ہوا،اور اس کی وجہ آپ تین ہفتے ہسپتال میں رہے،تو آپ نے اپنے شیخ کے طرز عمل کے مطابق ایک مضمون شائع کرایا ، جس میں اپنے احباب اور ملنے جلنے والوں سے یہ درخواست کی گئی تھی کہ اگر انہیں آپ سے کوئی تکلیف پہونچی ہوتو اسے للہ فی اللہ معاف فرمادیں،اور اگر کوئی مالی حق کسی کے ذمے رہ گیا ہوتو وہ وصول کرلیں،یہ مضمون’’کچھ تلافی مافات‘‘کے نام سے ہوا۔ جب حضرت والد صاحب کے دل میں اس مضمون کی اشاعت کا خیال پیدا ہواتو آپ نے احقر کو اس کامفہوم بتلاکر اسے تحریری شکل میں مرتب کرنے کا حکم دیا اور ہدایت فرمائی کہ پہلے حضرت تھانوی قدسرہ کے رسالے’’العذر والنذر‘‘کو پڑھ لینا،اور مضمون کی تمہید میں حضرت کے رسالے کا تعارف کرانے کے بعد اسی کے طرز پر اسے مرتب کردینا۔ اس تحریر کا مجھ پر بہت بوجھ تھا،معاملہ بھی نازک ساتھا،اس میں بہت پہلؤوں کی رعایت کرنی تھی،اور سب سے بڑھ کر ایک جذباتی رکاوٹ تھی، وہ یہ کہ والد صاحب اس مضمون کے آغاز میں اس مفہوم کے جملے لکھوانا چاہتے کہ’’اب میرا وقت قریب معلوم ہوتا ہے،کسی بھی وقت بلاوا آسکتا ہے،وغیرہ وغیرہ۔اور یہ جاننے کے باوجود کہ یہ باتیں حقیقت ہیں مجھے اس ماحول میں اپنے قلم سے اس قسم کے جملے لکھنا اپنی موت کے پروانے پر دستخط کرنے سے زیادہ صبرآزما معلوم ہوتا تھا۔ بہر کیف،اللہ سے دعا کی،خدا جانے کس طرح میں نے چار صفحات لکھے،اور حضرت والد صاحب کو سنانا شروع کیا ،یہ تو انہیں کی دعا وتوجہ کی برکت تھی کہ بالآخر انہوں نے اسے پسند کیا، لیکن ابتدا میں جب میں لرزتی ہوئی آواز میں یہ مضمون سناناشروع کیا اور اس قسم کا جملہ آیا کہ،، حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی صاحب تھانوی نے اس مقصد کے لئے ایک رسالہ شائع فرمایا تھا‘‘ تو میں نے دیکھا کہ حضرت کے چہرے پر قدرے تکدر کے سے آثار نمودار ہوئے اور فرمایا: ’’جائو میاں!تمہیں اب تک حضرت کا نام بھی لکھنا نہ آیا،اور حضرت کا تذکرہ اس طرح کردیا جیسے کسی اجنبی عالم کا ذکر کردیا جاتا ہے،خداکے بندے یہ تحریر تم میری طرف سے لکھ رہے ہو،