نمونے کے انسان |
زرگان د |
|
رہتی تھی ، اب اس راستہ سے گزرنا حضرت کے لئے قیامت سے کم نہ تھا ۔اس لئے حضرت یہ کرتے تھے کہ جب ایسا مقام قریب آتا تو مجھ فرماتے کہ عبدا لباری تم آگے چلو اور میری لاٹھی پکڑ لو اور اس کا پیچھے کا سرا خود حضرت پکڑ لیتے اور آنکھیں اپنی بند کرلیتے جس طرح نابینا لوگ چلا کرتے ہیں ۔یہی برابر حضرت کا معمول تھا جب اس جماعت کے پاس گزر تے تو وہ باہم ایک دوسرے سے کہتیں کہ ہے ہے دیکھوتو بابا کیسے اچھے ہاتھ پاؤں کے ہیں اور بیچارے اندھے ہوگئے ہیں۔ حضرت آگے بڑھ کر مجھ سے فرماتے کہ عبدالباری تم نے سنا وہ سب کیاکہہ رہی تھیں ۔کم بخت میرے ا ندھے ہونے پر ترس کھا رہی تھیں یہ نہیں جانتیں کہ اس کا سبب ہم ہی لوگ توہیں ۔تقوی کی برکت: حضرت والا کی طبیعت تقویٰ کی ایسی خوگر تھی کہ مشتبہ اور غیر یقینی چیزوں سے از خود غیب سے بھی حفاظت کے سامان ہوجاتے تھے ۔اللہ کا یہ بھی انعام اس کے خاص بندوں پر اکثر رہاہے کہ جب وہ اپنے ارادہ واختیار سے تقویٰ کی بھٹی میں اپنے نفوس کو پگھلاتے ہیں تو پھرقدرت بھی ایسے انتظامات فرماتی رہتی ہے کہ ان کے پاس کوئی ناجائز امر گزر نہ سکے ۔حضرت مولانا کے ایک عمر رسیدہ عزیز تھے انھوں نے ایک مرتبہ حضرت کی دعوت کی ،حضرت نے اخلاقاً انکار نہیں فرمایامگر ان کی آمدنی میں کچھ ترددتھا، حضرت والدہ کے پاس آئے اور کہا اماں! میں نے چچا کی ناراضگی کے خیال سے کچھ نہیں کہا، اب آپ اس سے بچائیے انھوں نے کہا کہ اسی وقت ہم پر ڈالدیتے، میں خوش اسلوبی سے اس کو ٹال دیتی ،خیر کہو تو اب جاؤں ان کے یہاں ؟ حضرت نے بعض مصالح کی بنیاد پر روک دیا ،کھانے کے وقت آدمی بلانے کے لئے آیا، حضرت تشریف لے گئے کھانے پربیٹھے اور چند ہی نوالے کھائے تھے کہ طبیعت مالش کرنے لگی ، دسترخوان سے اٹھ گئے اوراپنے مکان تشریف لے گئے ،قے ہوگئی اور جب تک سب کھایاہوا گر نہیں گیا متلی تھمی نہیں ،اس کے بعد سے والدہ کسی کی دعوت منظور ہی نہیں کرتی تھیں اور مزیداحتیاط یہ شروع کردی کہ اس کے بعدحضرت کے لئے غلہ مخصوص طریقہ سے الگ رکھنے لگیں ،اور گھر کاکھانابھی احتیاط کے ساتھ پکایاجانے لگا۔ ایساہی ایک واقعہ بالکل بچپن میں کانپور میں پیش آیا ،حافظ محمد زکریا صاحب کہتے ہیں مولوی عبدا لقیوم صاحب نے حضرت کے استاذ زادے حافظ حفیظ اللہ کے واسطے سے بیان کیاہے