نمونے کے انسان |
زرگان د |
|
بخود رہ گئے۔(تذکرہ شیخ الہند ص۵۳۱)بے نظیر تحمل: ایک دن طلبہ نے حضرت شیخ الہند سے فرمائش کی کہ حضرت!تیرنا سکھلا دیجئے،چنانچہ جمعہ کے دن سویرے طلبہ کو ہمراہ لیکر دیوبند سے باہرتالاب پر گئے،اور ہر ایک کو تیرنا سکھایا،ایک پنجابی طالب علم نے کہا ،حضرت!لائیے میں آپ کی کمر مل دوں،یہ کہہ کر اس نے کمر ملنا شروع کردی۔حضرت شیخ الہند کا جسم بہت نرم تھا،طالب علم نے سمجھا کہ میل بہت ہے،اس لئے فوراً ریت اٹھا کر ملنا شروع کردیا،جس کی وجہ سے کھال چھل گئی،مگر حضرت نے اف نہ کی۔جب واپس ہوئے تو راستے میں ایک بیل کو دیکھا جس کی کمر سے خون جاری تھا،پنجابی طالب علم نے کہا کہ کسی ظالم نے اس کو کتنی بری طرح مارا ہے،حضرت نے فرمایا،جی ہاں،کسی پنجابی نے اس کی کمر ملی ہوگی۔(تذکرۂ شیخ الہند۔ص۱۶۸)اگر میں کافر ہوں۔۔۔۔: حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی صاحب تھانوی قدس سرہ کا واقعہ ہے کہ ایک بار سفر میں وعظ سے پہلے انہیں کسی کا خط موصول ہوا جس میں لکھا تھا کہ ہم سنا ہے کہ آپ کافر ہیں اور جلاہے ہیں،اور یہ کہ اگر آپ نے یہاں وعظ میں کوئی اختلافی مسئلہ چھیڑا تو آپ کی خیر نہیں۔ حضرت حکیم الامت قدس سرہ نے اس خط پر مشتعل ہونے کے بجائے وعظ کے آغاز میں لوگوں کو وہ خط پڑھ کرسنایا اور اس کے بعد فرمایا کہ اس خط میں تین باتیں کہی گئی ہیں،پہلی بات تو یہ کہ میں کافر ہوں،اس کا جواب تو یہ ہے کہ میں آپ کے سامنے کلمہ پڑھتا ہوں،’’اشہد ان لاالہ الااللہ و اشہد ان محمداً رسول اللہ‘‘۔اب اس بحث میں پڑنے کی ضرورت نہیں کہ میں کافر ہوں یا نہیں،آپ کو معلوم ہے کہ اس کلمہ کی بدولت ستر برس کا کافر مسلمان ہوجاتا ہے،لہٰذا اگر بالفرض خدانخواستہ میں کبھی کافر تھا بھی تو اس کلمے کے بعد مسلمان ہوگیا،لہٰذا اس بحث کی ضرورت نہیں۔ دوسری بات یہ کہی گئی ہے کہ میں جلاہا ہوں،اس کا جواب یہ ہے کہ یہاں کوئی نکاح کا پیغام لے کر نہیں آیا ہوں،جس کے لئے اس تحقیق کی ضرورت ہو،اگر بالفرض میں جلاہا ہوں مگر دین کی صحیح بات بتاتا ہوں تو محض جلاہا ہونے کی وجہ سے اسے رد نہیں کرنا چاہئے،ویسے اگر کسی کو