نمونے کے انسان |
زرگان د |
|
پر کچھ لکھ چھوڑا تھا،بازو پر باندھنے کے لئے دیتے رہے،شام کے وقت اسہال شروع ہوگئے،ہر مرتبہ طاقت جواب دیتی جارہی تھی،یہاں تک کہ مغرب کے بعد نبض بھی ساقط ہوگئی،اور سوائے سانس کے زندگی کی کوئی علامت باقی نہیں رہی،دس بجے شب کو یک بیک جنبش پیدا ہوئی اور از خود دائیں طرف جھک گئے،اور قلب جاری ہوگیا،اور اس میں اس قدر شدت وحدت پیدا ہوئی کہ سو قدم کے فاصلے سے لفظ مبارک’ اللہ‘ سنا جاسکتا تھا،قلب مبارک میں اتنی جنبش تھی کہ گویا ایک ایک بالشت اچھلتا تھا،یہ حال ایک بجے رات تک رہا،پھر اضمحلال پیدا ہوگیا،اس وقت اس فقیر نے بعض حاضر الوقت دوستوں سے کہا کہ سورہ یس کی تلاوت کریں،تلاوت کرتے ہی خاموشی اور سکون پیدا ہوگیا،دوبارہ سورہ یس کی تلاوت کی گئی،پھر تلقین شروع کی،آپ نے ذکر لسانی شروع فرمایا،منہ اور زبان کی حرکت دیکھنے سے اور آواز قریب سے سننے سے معلوم ہوتی تھی کہ لفظ مبارک ’اللہ‘ کو کمال تجوید کے ساتھ ادا فرماتے تھے،جیسے کہ زندگی میں عادت مبارک تھی،اسی طرح آخر تک ذاکررہے،دم واپسیں کے وقت فک اسفل بلند ہوگیا اور اسم ذات کے ادا کرنے میں زبان متحرک ہوگئی،مگر پورے طور پر ادا نہ ہونے پایا تھا کہ جان جان آفریں کے سپرد کی۔ چیست ازیں خوب تر در ہمہ آفاق کار دوست رسد نزد دوست یار بنزدیک یار وہ رات ہم لوگوں کے لئے شب قدر تھی،ایسا معلوم ہوتا تھا کہ ملائکۂ رحمت نے ہر طرف سے ہجوم کیا ہے،تنہائی سے کوئی وحشت اور ایسے شفیق باپ کے دنیا سے جانے کا کوئی صدمہ نہ تھا، قلب میں عجیب کشائش تھی اور بے ساختہ زبان پر’ الحمدللہ‘ جاری تھا،احباب تسبیح وتہلیل میں مشغول تھے،اور نماز تہجد ادا کررہے تھے،ایسی کیفیت محسوس کررہے تھے جو بیان میں نہیں آسکتی ، میں نے اس طرح کی کیفیت اپنی زندگی میں کبھی نہیں دیکھیں۔ یہ واقعہ ۱۰؍رمضان المبارک ۱۳۲۶ھ کا ہے،اس وقت والد ماجد کی عمر۷۱؍سال کی تھی۔ (کاروان ایمان وعزیمت۔ص۱۷۴)شیخ شرف الدین یحییٰ منیری کی وفات کا ایمان افروز منظر: تقریباً ساٹھ سال مخلوق خدا کی نفع رسانی اور ہدایت سامانی میں زندگی گزارکر ۱۲۱؍ سال کی عمر میں جس شان کے ساتھ اپنی روح وجان ،جہان آفریں پروردگار کے سپرد کی ہے، وہ ان کی