نمونے کے انسان |
زرگان د |
|
نہ ہوگی،صرف چائے،پھل پیش کئے جائیں گے،میں نے یہ دعوت ردوکد کے بعد قبول کرلی، چائے کے بعد گفتگو کا سلسلہ چلا، اچانک میزبان نے اپنی گفتگو کا موضوع دارالعلوم کو بنالیا،اس وقت کورنگی میں دارالعلوم کی تعمیر جاری تھی،اور کثیر رقم کی اس میں ضرورت تھی،انہوں نے معلومات حاصل کرنے کے بعد اپنی حکومت کی جانب سے اتنی بڑی رقم کی پیش کش کی جس سے دارالعلوم کے تمام تعمیری منصوبے پایۂ تکمیل تک پہونچ جاتے،فرمایا کہ یہ سن کر مجھے پسینہ آگیا،مگر میں نے یہ کہہ کر کہ حکومت کی امداد میں شرائط ہوتے ہیں،اور ہم شرائط کے ساتھ کوئی امداد نہیں لیتے،ان سے عذر کردیا،انہوں نے برجستہ کہا کہ یہ تمام امداد غیر مشروط ہوگی،یہ سن کر مجھے پھر پسینہ آگیا،اور اللہ سے دعا کی کہ اس فتنہ سے بچا،اللہ تعالی نے جواب ذہن میں ڈالا اور میں نے کہا کہ ہم اپنی حکومت سے بھی امداد نہیں لیتے ،اور ہمارے لئے بڑے اعتراض کی بات ہوگی کہ کسی غیر ملکی حکومت سے امداد لیں۔اتنا سن کر وہ خاموش ہوگئے بلکہ مایوس ہوگئے،اس کے بعد نہ خود آئے نہ کوئی رابطہ قائم کیا۔(البلاغ مفتی اعظم نمبر۔ج۲۔ص۸۲۳)تعلقات حکومت سے اجتناب: فلیڈ مارشل محمد ایوب خان کے دور میں وزیر اوقاف مسٹر مسعود جو ان دنوں مدارس دینیہ کو قومی تحویل میں لینے کے لئے مدارس میں جایا کرتے تھے،دارالعلوم کراچی بھی آئے،حضرت مفتی محمد شفیع صاحب مرحوم نے بات چیت کے دوران فرمایا کہ دارالعلوم کا ظاہری حسن وجمال کہیں آپ کو دھوکے میں نہ ڈال دے،آپ کو یقین آئے یا نہ آئے مگر حقیقت یہ ہے کہ آپ کو جوچیزمطلوب ہے (یعنی مستقل آمدنی)اس کا یہاں وجود ہی نہیں،اگر اعتبار نہ آئے تو حکومت اپنی تحویل میں لے کر دیکھ لے،مگر یاد رکھئے کہ جب لوگوں کو یہ معلوم ہوجائے گا کہ دارالعلوم پر حکومت کا قبضہ ہے تو اس کی آمدنی ختم ہوجائے گی،بجائے لینے کے دینے پڑجائیں گے،اس پر انہوںنے معذرت کی اور ساتھ ہی اصرار کیا کہ حکومت دارالعلوم کو کچھ گرانٹ دینا چاہتی ہے،اس کو قبول کرلیجئے،مگر آپ نے اسے قبول نہ کیا،وہ مسلسل اصرار کرتا رہا یہاں تک کہ اس نے کہا کہ اچھا اتنا توقبول کیجئے کہ مخصوص طلبہ کے وظائف ہم دیں گے،ان کی فہرست عنایت کیجئے،مگر اس بات کو بھی قبول نہ کیا۔ (البلاغ مفتی اعظم نمبر۔ج۲۔ص۱۰۹۷)