نمونے کے انسان |
زرگان د |
|
معاف کرنے پر مجبور ہوگیا ۔ پھر اس نے دعوت کے لئے کہا تو ان کے گھر کی عورتوں نے کہا کہ اسی گاؤں سے کل پٹ کر آئے ہواور آج وہیں دعوت کھانے جاؤگے ، یہ تو بڑی بے غیرتی کی بات ہے ، تو کہنے لگے بھائی عورتیں منع کرتی ہیں ، اس نے کہا اچھا کھانا میں یہیں لاؤں گا ، اور دعوت کرنی تو مجھے ضروری ہے ۔ اس لئے کہ ہمارے حضرت کی معافی اسی پر موقوف ہے ، خیر اس کو منظور کرلیا ، وہ گھر گیا اور عمدہ کھانے پکوا کر لایا اور ان کے گھر دے آیا ۔ اور دوسرے دن جب وہ برتن لینے گیا تو مولوی صاحب وہی کھانا کھارہے تھے ، کہنے لگے دیکھو جی تمہارے ہی یہاں کا بچا ہوا کھانااس وقت بھی کھارہا ہوں ، غرض وہ بالکل راضی ہوگئے اور ایک اتنا بڑا فتنہ جس کو سن کر میں اول وہلہ میں تو سمجھا تھا کہ اب ایسی آگ لگ گئی ہے کہ اس نے تو اب تک کی میری ساری محنت ہی خاکستر کرکے رکھ دی ہے ، لیکن الحمد ﷲ کہ وہ فتنہ فرو ہوگیا ، اور اپنے بعد اپنا کوئی اثر بھی نہیں چھوڑا ، اس سے میں نے سمجھا کہ یہ اخلاق کی فتح ہے ، یہی سکھلاتا ہوں اور چاہتا ہوں کہ لوگ اس طور پر کام کریں ۔غیرتِ دینی : گورکھپور کے دورانِ قیام ایک واقعہ ایسا گذرا ہے جس سے حضرت کی اعلیٰ درجہ کی دینی غیرت کا ظہور ہوتا ہے ، ایک بار حضرت کی طبیعت سخت علیل ہوئی ۔ بیماری ایسی تھی کہ اس میں جسم کا پانی خشک ہوگیا ، حضرت پر غشی طاری ہوگئی ، کسی طرح ہوش نہ آتا تھا ، ایک غیر مسلم ڈاکٹر جو مولوی نثار اﷲ مرحوم کا گویا گھریلو طبیب تھا ، اس کا مشورہ ہوا کہ حالت بہت نازک ہے ، پانی بدن میں چڑھانا ضروری ہے ، ورنہ معاملہ خطرناک ہے اس نے ہاتھ میںرگ تلاش کی مگر نہ مل سکی ، پاؤں میں تلاش کی وہاں بھی نہیں مل رہی تھی، بڑی مشکلوں سے رگ دستیاب ہوئی ۔ رات بھر میں کئی بوتل پانی چڑھایا گیا بالآخر حضرت کو ہوش آگیا اور آنکھیں کھول دیں ، رات میں بھی ڈاکٹر باربار آیا ، صبح کے وقت جب ڈاکٹر آیا تو حضرت ہوش میں تھے ، اس نے برجستہ کہا : ’’کہئے مولاناصاحب! رات تو آپ چل دیئے تھے ، میں نے آپ کو بچالیا‘‘۔ حضرت نے یہ جملہ سننے کوتو سن لیا ، مگر چہرے کا رنگ متغیر ہوگیا ، اس وقت تو نہ بولے ، جب ڈاکٹر چلا گیا تو آپ نے فرمایا کہ میں اس ڈاکٹر کی دوا نہیں کروں گا ، ایک خوراک بھی اس کی