نمونے کے انسان |
زرگان د |
|
ہوگئے،تھوڑی دیر میں مولانا محمد یعقوب صاحب کسی سے باتیں کرتے ہوئے اور مسکراتے ہوئے نکلے،امام صاحب نے جو مولانا کی صورت دیکھی تو آنکھوں میں آنسو بھر لائے اور کہا کہ مجھے ان حضرات سے ناحق بد اعتقادی تھی،ان کی نورانی صورت ،ان کی ولایت پر خود شاہد ہے،ایسی نورانی صورت خدا کے خاص بندوں کے سوا دوسروں کی نہیں ہوسکتی،اور ان پر اس وقت ایک حالت طاری ہوئی،جس سے بے تاب ہوگئے اور ہائے ہائے کہتے ہوئے انہوں نے مولانا کے قدم پکڑ لئے اور بہت روئے۔(ارواح ثلاثہ۔ص۲۴۸)امانت میں احتیاط: خاں صاحب نے فرمایا کہ مولوی محمد منیر صاحب مدرسہ دیوبند کے مہتمم تھے،ایک مرتبہ وہ مدرسہ کے ڈھائی سو روپئے لے کر مدرسہ کی سالانہ کیفیت چھپوانے کے لئے دہلی آئے،اتفاق سے روپئے چوری ہوگئے،مولوی صاحب نے اس چوری کی کسی کو اطلاع نہیں کی اور مکان آکر اپنی کوئی زمین وغیرہ بیع کی اور ڈھائی سو لے کر دہلی پہونچے اور کیفیت چھپواکر لے آئے،کچھ دنوں کے بعد اس کی اطلاع اہل مدرسہ کو ہوئی ،انہوںنے مولانا گنگوہی کو واقعہ لکھا اور حکم شرعی دریافت کیا،وہاں سے جواب آیا کہ مولوی صاحب امین تھے،اور روپیہ بلا تعدی کے ضائع ہوا ہے ،اس لئے ان پر ضمان (تاوان)نہیں،اہل مدرسہ نے مولوی محمد منیر صاحب سے درخواست کی کہ آپ روپیہ لے لیجئے، اور مولاناکا فتوی دکھلایا،مولوی صاحب نے فتوی دیکھ کر فرمایا کہ کیا میاں رشید احمد نے فقہ میرے ہی لئے پڑھی ہے؟اور کیا یہ مسائل میرے ہی لئے ہیں؟ذرا اپنی چھاتی پر ہاتھ رکھ کر تودیکھیں،اگر ان کو ایسا واقعہ پیش آتا تو کیا وہ بھی روپیہ لے لیتے؟جائو لے جائو،اس فتوی کو،میں ہرگز روپیہ نہ لوںگا۔(ارواح ثلاثہ۳۴۰)ترک شریعت پر نفرت: ایک مرتبہ حضرت مولانا رشید احمد صاحب گنگوہی قدس سرہ اشراق کی نماز سے فارغ ہوکر باہر تشریف لائے اور معمول کے خلاف چادر سے منہ ڈھانپ کرلیٹ رہے،ایک دن پہلے کرنال سے ایک برات گنگوہ آئی تھی،جس میں رقاصہ بھی تھی،اس برات میں آنے والے چند آدمی حضرت امام ربانی کے واقف کار بھی تھے،جو صبح کو سلام کے لئے حاضر آستانہ ہوئے،دیکھا تو