نمونے کے انسان |
زرگان د |
|
فتح پور تال نرجا ایک گاؤں ہے ، اس میں ایک بزرگ ہمارے مولانا صاحب ہیں، میں ان کے پاس آتا جاتا ہوں، اگر تمہیں میرے اندر کچھ اچھائی نظر آتی ہے تو ان کااثر ہوگا، اور بھی کئی آدمیوں سے میں نے ان مولانا صاحب شاہ صاحب کا ذکر سناہے ، اس لئے مجھے بھی ان کے درشن کرنے کا شوق ہے ، اس نوجوان نے اپنی یہ بات ختم کرتے ہوئے بڑے جوش سے کہا کہ میرا تو ایمان دھرم ہے کہ میرے ملک کا بگاڑ جب ہی ٹھیک ہوگا جب یہ ملنگ ( یعنی درویش لوگ ) ملک کا انتظام اپنے ہاتھ میں لیں گے۔گلستاں بوستاںکاسبق: جن دنوں حضرت والا کا قیام وطن کے بعد گورکھپور میں تھا ، تو وہاں’ میاں صاحب مسلم انٹر کالج گورکھپور‘ کے ایک اردو فارسی کے مدرس مولوی شکیل احمد صاحب عباسی بھی حضرت والا کی مجلس میں تشریف لایا کرتے تھے۔ ایک دن انھوں نے خود حضرت والا سے اپنا واقعہ عرض کیا کہ کل جب میں یہاں سے حضرت کی مجلس سے واپس گھر جارہا تھا تو راستہ میں ایک دوست ملے ، انھوں نے پوچھا مولوی صاحب اس وقت کہاں سے تشریف لارہے ہیں ؟ میں نے برجستہ کہا کہ گلستاں بوستاںکاسبق پڑھ کر آرہا ہوں ، دیکھا کہ اس جملہ کو انھوں نے بہت تعجب کے ساتھ سنا ، کہنے لگے کہ آپ نے تو نہ جانے کتنوں کو گلستاں بوستاں پڑھادیا ہوگا ، یہ آپ کیا فرمارہے ہیں کہ میں اس کا سبق پڑھ کر آرہا ہوں ؟ میں نے جب ان کو متحیردیکھا تو خود ہی اپنے قول کی شرح کی اور کہا کہ بھائی میرے! میں اس وقت حضرت مولانا شاہ وصی اﷲ صاحب کی مجلس سے آرہا ہوں ، اور حضرت نے تمام مجلس گلستاں بوستاں ہی سنائی ہے ، اور اس سلسلے میں ایسی ایسی باتیں بتائی ہیں کہ کیا کہنا ، سبحان اﷲ میں نے اس سے قبل اس انداز سے اس کا مطلب کسی سے نہیں سنا تھا ، حضرت سے سننے کے بعد میں نے سمجھا کہ جواب تک اس کو پڑھا پڑھایا تھا وہ کچھ نہیں تھا ، دراصل گلستاں بوستاں ان حضرات سے پڑھنے کی کتاب ہے ، اور بڑوں کے پڑھنے کی کتاب ہے ۔ ہم لوگوں نے جو بچوں کے حوالے کردیا ، حق یہ ہے کہ شیخ سعدی پر ظلم ہے ۔اسی کو میں نے کہہ دیا ہے کہ گلستاں بوستاں پڑھ کر آرہا ہوں۔