نمونے کے انسان |
زرگان د |
|
شجاعت: ایک مرتبہ دارالعلوم کی انتظامیہ کے خلاف ایک شدید طوفان کھڑا ہوا،جس میں بعض لوگ حضرت مولانا حبیب الرحمان صاحب کی جان تک کے دشمن ہوگئے،ان حالات میں بھی مولانا کھلی چھت پر تن تنہا سوتے تھے۔ میں نے ایک مرتبہ عرض کیا کہ حضرت!ایسے حالات میں آپ کا اس طرح سونا مناسب نہیں معلوم ہوتا،آپ کم از کم کمرے کے اندر ہی سوجایا کریں لیکن مولانا نے بڑی بے نیازی سے فرمایا: ’’ارے میاں!میںتو اس باپ(یعنی سید عثمان غنی)کا بیٹاہوں جس کے جنازے کو چار اٹھانے والے بھی میسر نہ آئے اور جسے رات کے اندھیرے میں بقیع کی نذر کیاگیا،لہٰذا مجھے اس کی کیا پرواہ ہوسکتی ہے‘‘۔(البلاغ مفتی اعظم نمبر۔ج۱۔ص۲۷۶)نگاہِ دوررس: ایک مرتبہ مولانا محمود حسن صاحب دیوبندی مرادآباد جلسہ میں تشریف لے گئے، لوگوں نے وعظ کے لئے اصرار کیا، مولانا نے عذر فرمایا کہ مجھے عادت نہیں ہے، مگر لوگوں نے نہ مانا، آخر مولانا کھڑے ہوگئے، اور’’فقیہ واحد اشد علی الشیطان من الف عابد‘‘ پڑھی، اوراس کا ترجمہ یہ کیا کہ’’ ایک عالم شیطان پر ہزار عابد سے زیادہ بھاری ہے‘‘۔وہاں ایک عالم تھے وہ کھڑے ہوئے،اورکہا کہ یہ ترجمہ غلط ہے، اورجس کو ترجمہ بھی صحیح نہ کرنا آوے، تو اس کو وعظ کہنا جائز نہیں، بس مولانا خود فوراً بیٹھ گئے، اورذرا بھی تغیر نہ آیا، فرمایا کہ میں تو پہلے ہی کہتا تھا، کہ مجھے وعظ کہنے کی لیاقت نہیں، مگر ان لوگوں نے نہ مانا، خیر اب میرے پاس عذر کی دلیل بھی ہوگئی، یعنی آپ کی شہادت، پھر حضرت مولانا نے ان بزرگ سے بطرز استفہام پوچھا کہ غلطی کیا ہے؟ تاکہ آئندہ بچوں۔ انہوں نے فرمایا کہ’ ’اشد‘ ‘کا ترجمہ’ ’اثقل ‘‘(بھاری) نہیں آتا، بلکہ’’ اضر‘ ‘(یعنی مضر اورنقصان دہ) آتا ہے، مولانا نے فی الفور فرمایا حدیث وحی میں ہے کہ ’’یاتینی مثل صلصلۃ الجرس وہو اشد علی‘‘ کبھی وحی میرے پاس گھنٹی کی آواز کی طرح مسلسل آتی ہے، اوروہ میرے اوپر زیادہ بھاری ہوتی ہے، کیا یہاں بھی’’ اشد‘‘ کے معنی ’’اضر ‘‘کے ہیں؟ وہ دم