نمونے کے انسان |
زرگان د |
|
نے اجازت دی، وہ خانقاہ میں داخل ہوا، حضرت نے اسی پہلوان کو پکارا کہ کرسی لاؤ ، داروغہ جی آئے ہیں، اور کچھ پان چھالیہ لاؤ، داروغہ پہلوان کو بہت غور سے دیکھنے لگا، حضرت نے فرمایا کہ دیکھ رہے ہو، ارے یہ تو تین خون کرکے آیا ہے، شاید وارنٹ آپ کے پاس بھی آیا ہوگا، کہا آیا ہے، حضرت نے کہا کہ اسے لے جاؤ، داروغہ نے کہا کہ بابا! میری ہمت نہیں ہے، اگر ان کو لے جائیں تو کہیں ہم بھی نہ چلے جائیں، کچھ دیر کے بعد داروغہ چلاگیا، اس کے بعد سرکل انسپکٹر آیا اس کی بھی خاطر تواضع پہلوان سے کرائی ، پھر اس کا تعارف کرایا اور اس سے بھی فرمایا کہ اگر لے جانے کے لئے آئے ہیں تو لے جاسکتے ہیں، مگر اس کی بھی ہمت نہیں ہوئی، اس کے بعد کوئی نہیں آیا۔ الہ آباد میں مقدمہ چلتا رہا، پہلوان کے خلاف پولیس نے کیس بہت مضبوط کرلیا تھا، گواہوں کا بیان بھی ہوچکا تھا، حالانکہ واردات کے وقت کوئی بھی موجود نہ تھا لیکن پولیس نے گواہ تیار کرلئے تھے۔ جو لوگ ضمانت پر رہا ہوئے تھے، وہ مقدمہ کی پیروی کررہے تھے، جب فیصلہ کی تاریخ پڑی تو اس کی اطلاع خانقاہ میں کی گئی، حضرت مولانا نے پہلوان سے کہا کہ اس تاریخ پر تم جاؤ تاکہ دوسرے لوگ زد میں نہ آجائیں، حسب ارشاد جمن کچہری میں حاضر ہوا، انداز پہلوانوں کا سا تھا، تہبند باندھے ہوئے، لانبا کرتا پہنے ہوئے، سر پر صافہ ہاتھ میں مرزا پوری لاٹھی، حاکم نے آتے ہی پوچھا تم کون ہو؟ جواب دیا کہ جمن پہلوان میرا ہی نام ہے، حاکم گھبرا سا گیا ، حیرت زدہ ہوکر دوبار پوچھا کیا تمہیں جمن پہلوان ہو؟ بولا میں ہی ہوں، حاکم کچھ دیر دانتوں میں قلم دبائے بیٹھا رہا، آدمی باہر تک کھڑے تھے، کافی دیر غور کرنے کے بعد اس نے مسل پر کچھ لکھا اورکسی سے کہا کہ سنا دو، سنانے والے نے فیصلہ سنایا۔ ’’قتل سچا، قاتل یہی ہے، گواہ جھوٹے، اسی لئے مقدمہ خارج‘‘۔ پورا ہال خوشی سے جھوم اٹھا، جمن نے حاکم کو سلام کیا اورکہا کہ میرے لئے کیا حکم ہوتا ہے، کہا کہ جاؤ، انھوں نے کہا کہ مکانوں میں تالا بند ہے، حکم دیا جائے کہ کھول کر مکان ہم لوگوں کے حوالے کیاجائے، چنانچہ حکم ہوگیا اور خوشی خوشی چند روز رہ کر جمن خانقاہ میں چلاآیا، اور تمام لوگ حضرت کے معتقد ہوگئے، اور برابر آتے جاتے رہے۔ایک عجیب واقعہ: سیدسراج احمد صاحب نے حضرت مولانا سید عبداللہ صاحب کا ایک واقعہ سنایا کہ ایک