نمونے کے انسان |
زرگان د |
|
صاحب موصوف مولانا نانوتوی سے عمر اورطبقہ کے اعتبار سے مقدم تھے)۔(ارواح ثلاثہ ص۲۹۲ )وہ صورتیں الٰہی: حضرت شیخ الہند مولانا محمود حسن صاحب ناقل ہیں کہ ایک مرتبہ مولانا مظفر حسین صاحب کاندھلوی (شاہ اسحاق محدث دھلوی کے تلمیذ اورعلماء دیوبند کے بزرگ) کہیں تشریف لے جارہے تھے، راستہ میں ایک بوڑھا آدمی ملا جو بوجھ لئے جارہا تھا، بوجھ کسی قدر زیادہ تھا، بمشکل چل پاتا تھا، مولانا نے جب یہ حال دیکھا تو آپ نے اس سے بوجھ لئے لیا، اورجہاں جانا چاہتا تھا پہونچا دیا، اس بوڑھے نے پوچھا کہ اجی! تم کہاں رہتے ہو، فرمایا میں کاندھلہ میں رہتا ہوں، اس نے کہا وہاں مولوی مظفر حسین بڑے ولی ہیں، فرمایا اورتو اس میں کوئی بڑی بات نہیں ہے، ہاں نماز پڑھ لے ہے، اس نے کہا واہ میاں! تم ایسے بزرگ کو ایسا کہو، مولانا نے فرمایا کہ میں ٹھیک کہتا ہوں، وہ بوڑھا ان کے سر ہوگیا، اتنے میں ایک اورشخص وہاں آگیا، جو مولانا کو جانتا تھا، اس نے بوڑھے سے کہا بھلے مانس! مولوی مظفر حسین صاحب تو یہی ہیں، وہ بوڑھا یہ سنتے ہی ا ن سے لپٹ کر رونے لگا، مولانا بھی اس کے ساتھ رونے لگے۔ (ارواح ثلاثہ۔ص۱۵۵)نامعلوم قلی: اسی کے مماثل ایک واقعہ مفتی محمد شفیع صاحب مفتی اعظم پاکستان کا بھی ان کے صاحبزادے مولانا محمد رفیع صاحب لکھتے ہیں کہ سردیوں کی ایک رات میں والد صاحب بذریعہ ریل تھانہ بھون کے اسٹیشن پر اترے، برانچ لائن پر یہ ایک چھوٹا سا قصبہ ہے، جس کا اسٹیشن بھی بہت چھوٹا اورآبادی سے کافی دور ہے، راستہ میں کھیت اورغیر آباد زمینیں ہیں، وہاں اس زمانہ میں بجلی تو تھی ہی نہیں، رات کے وقت قلی یا سواری ملنے کا امکان نہ تھا، کیوں کہ اس وقت اکا دکا ہی کوئی مسافر آجاتا تھا، گاڑی دوتین منٹ رک کر روانہ ہوگئی، اب اسٹیشن پر ہو کا عالم تھا، ہر طرف جنگل، اندھیری رات اورسناٹا ، اسٹیشن سے قیام گاہ تک عموماً آمدورفت پیادہ ہوا کرتی تھی، والد صاحب تنہا تھے، سامان بھی ساتھ میں نہ تھا، اس لئے فکر نہ تھی، اچانک آواز آئی ’’قلی ،قلی‘‘یہ آواز بار بار آرہی تھی،اوراب اس میں گھبراہٹ بھی شامل ہوگئی تھی،کوئی صاحب مع اہل وعیال اسی گاڑی سے اترے تھے، قلی نہیں مل رہا تھا، جو آبادی تک پہونچادے، یہ والد صاحب کے ایک واقف کار تھے،