نمونے کے انسان |
زرگان د |
|
طرح کی مٹھائی ) کھانے کو دیں تو کیا حرج ہے ‘‘ یہی جملہ بار بار دہرایا ، اس وقت تو لوگوں کو کچھ محسوس نہ ہوا، مگر چند ہی روز کے بعد حضرت کے اس جملہ کا مطلب سمجھ میں آنے لگا ، کاروبار جو بالکل ٹھپ تھا ،کھلا، اور ایسا کھلا کہ گھروں میں دولت پانی کی طرح بہنے لگی۔ کپڑے کے جن تھانوں میں ساٹھ ستر روپئے کی بچت ہوتی تھی ، ان میں پانچ پانچ سو کی بچت ہونے لگی ، یہ حال تین سال تک قائم رہا۔گویا تین دن کی دعاؤں کی قبولیت کا ظہور تین سال قائم رہا ، پھر کاروبار حسب معمول آگیا ۔مرشد کا پیغام اور مولانا کی صاف گوئی: ’’ زمانۂ قیام تھانہ بھون میں جب ہمارے حضرت کو خلافت ملی تو اس کے کچھ ہی دنوں کے بعد وہاں ایک صاحب تھے جو غالباً حضرت حکیم الامت کے قریبی عزیز بھی ہوتے تھے ، ان کی یہ خواہش ہوئی کہ اپنی صاحبزادی کی نسبت ہمارے حضرت سے کردیں ، اگرچہ دنیوی رسم ورواج کے مطابق ان کا خاندان اور حضرت کا خاندان الگ الگ تھا ، لیکن انھوں نے حضرت والا کی دینداری اورتقویٰ کی وجہ سے اس پہلو سے صرف نظر کرکے خواجہ عزیزالحسن صاحب سے عرض کیا کہ وہ اس مسئلہ میں کچھ سلسلۂ جنبانی فرمائیں ، خواجہ صاحب نے مشورہ دیا کہ آپ خوداس خیال کو مولوی وصی اﷲ صاحب سے براہ راست ظاہر کردیجئے ، اور اگر یہ آپ کے نزدیک مناسب نہ ہوتو پھر حضرت اقدس کو واسطہ بنائیے ، چونکہ یہ خواہش ان کے دل میں گھر کرچکی تھی اس لئے حضرت تھانوی سے انھوں نے ہمت کرکے اپنا مدعا عرض کرہی دیا، اورساتھ ہی یہ بات بھی بتادی کہ سارا خرچ اپنی لڑکی کااپنے ہی ذمہ رکھوں گا جب تک مولوی صاحب کہیں برسر روزگار نہ ہوجائیں، ان پر اس کا کچھ بار نہ ہوگا۔ حضرت مولانا نے فرمایاکہ آپ کی خاطر سے میں ان سے کہہ تو سکتا ہوں ، لیکن میرے نزدیک مناسب یہی ہے کہ آپ خود گفتگو کرلیں ، میرا اور ان کا تعلق آپ کو معلوم ہے ، ایسا نہ ہو کہ میرے مشورہ کو وہ حکم کا درجہ دے کر اپنی رائے ختم کردیں ، اور نکاح مجبوراً انھیں کرنا پڑے ، تاہم وہ صاحب اسی پر مصر رہے کہ حضرت فرمادیں۔ حضرت مولانا تھانویؒ نے ایک دن حضر ت کو بلا کر فرمایا کہ میں اس وقت آپ کو صرف ایک صاحب کا پیغام پہونچاناچاہتاہوں ، جو نہ تو میراحکم ہے اور نہ اس پر آپ مجبور ہیں ، میں صرف