نمونے کے انسان |
زرگان د |
|
شفقت وخیر خواہی امت مسلمہ کے لئے سوز دل : مالٹا کی قید سے واپس آنے کے بعد ایک رات بعد عشا دارالعلوم میں شیخ الہند تشریف فرماتھے،علما کا بڑا مجمع سامنے تھا،اس وقت فرمایا کہ ’’ہم نے تو مالٹا کی زندگی میں دو سبق سیکھے ہیں، یہ الفاظ سن کر سارا مجمع ہمہ تن گوش ہوگیا کہ اس استاذ العلما درویش نے اتنے سالوں علما کو درس دینے کے بعد آخر عمر میں جو سبق سیکھے ہیں وہ کیا ہیں؟۔فرمایا کہ: ’’میں نے جیل کی تنہائیوں میں اس پر غور کیا کہ پوری دنیا میں مسلمان دینی اور دنیوی حیثیت سے کیوں تباہ ہورہے ہیں؟تو اس کے دو سبب معلوم ہوئے،ایک ان کا قرآن کو چھوڑ دینا، دوسرے آپس کے اختلافات اور خانہ جنگی،اس لئے میں وہیں سے یہ عزم کرکے آیا ہوں کہ اپنی باقی زندگی اس کام میں صرف کروں کہ قرآن کریم کو لفظاً اور معناً عام کیاجائے،بچوں کے لئے لفظی تعلیم کے مکاتب بستی بستی قائم کئے جائیں،بڑوں کو عوامی درس کی صورت میں اس کے معانی سے روشناس کرایا جائے،اور قرآنی تعلیم پر عمل کے لئے آمادہ کیاجائے اور مسلمانوں کے باہمی جنگ و جدال کو کسی قیمت پر برداشت نہ کیا جائے‘‘۔ نباض امت نے ملت مرحومہ کے مرض کی جو تشخیص اور تجویز فرمائی تھی،باقی ایام زندگی میں ضعف وعلالت اور ہجوم مشاغل کے باوجود اس کے لئے سعی پیہم فرمائی،بذات خود درس قرآن شروع کرایا،جس میں تمام علماء شہر اور حضرت مولانا سید حسین احمد مدنی اور حضرت مولانا شبیر احمد عثمانی جیسے علما بھی شریک ہوتے تھے،اور عوام بھی،اس ناکارہ کو اس درس میں شرکت کا شرف حاصل رہا ہے،مگر اس واقعے کے بعد حضرت کی عمر ہی گنتی کے چند ایام تھی۔ آں قدح بشکست وآن ساقی نماند (البلاغ مفتی اعظم نمبر۔ج۱۔ص۲۲۹)