نمونے کے انسان |
زرگان د |
|
مبارک پوری صاحب تشریف لائے تھے ، میرے ساتھ ایک ذی استعداد نوجوان عالم بھی تھے ، جو مدرسہ دینیہ میں اس وقت مدرس تھے ، قاضی صاحب سے ان کا تعارف ہوا ، وہ ایک دن قاضی صاحب کے ساتھ رہے ، انھوں نے اندازہ کرلیا کہ یہ عالم باصلاحیت ہیں ، کسی وقت ان کو دیکھا کہ وہ ذکر بالجہر میں مشغول ہیں ، قاضی صاحب نے مجھے مخاطب کرکے فرمایا کہ یہ زمانہ علم میں پختگی پیدا کرنے اورمطالعہ میں انہماک کا ہے، ان سے کہو کہ تحقیق ومطالعہ کا اہتمام کریں ، انھوں نے ذکر کی نفی نہیں کی ، لیکن ان کے پیش نظر یہ بات تھی کہ اس انہماک میں کہیں علم سے نہ رہ جائیں ۔کلام الٰہی کی برکت: مولوی کمال صاحب مرحوم دین کے گمنام خدمت گزاروں کے زمرہ کے ایک نادرۂ روزگار سپاہی تھے،صوبہ بہارکے ضلع دمکہ(سنتھال پرگنہ)کے ایک مخصوص خطے میں ان کی اصلاحی کوشش جاری تھی، ان کی اصلاحی کوششوں میں ایسے کئی مرحلے آئے ، جو بہت نازک اور صبر آزماتھے مگر جب وہ ان سے عہدہ برآ ہوئے تو غبار چھٹ گیا ، وہاں کے لوگوں سے سنا کہ اسی حلقے کے ایک قریبی موضع میں ایک شخص نسبتاً بااثر تھا ، وہاں کے عام لوگوں کے مقابلے میں اﷲ تعالیٰ نے کچھ مال بھی زیادہ عطافرمایا تھا ، مولوی صاحب کے مخالفین میں وہ نمایاں تھا ، اور اس کی مخالفت کی وجہ سے پورا گاؤں مولوی صاحب سے دور تھا ، اﷲ کا کرنا ایسا ہوا کہ اس کا اکلوتا بیٹا بیمار ہوا ،وہ ٹی۔بی کے مرض میں مبتلا ہوا، اور وہ بھی ایسے دیہات میں ، جہاں قریب میں کوئی قابل ذکر علاج کا انتظام نہیں ، گھر والوں نے سمجھ لیا کہ یہ لڑکا ہاتھ سے گیا ، حتی الامکان دواوغیرہ کی گئی مگر کچھ فائدہ نہیں ہوا، کسی نے مشورہ دیا کہ مولوی کمال الدین سے دعا کرائی جائے، مگر وہابی کو بلاکر اپنا ایمان کون خراب کرے ؟انکار کردیا گیا ، مگر بیٹے کی حالت گرتی گئی ، بیٹے کی جان عزیز تھی، بہر حال مولوی صاحب سے کہا گیا کہ آکر دم کریں ، وہ بے چارے بے دم تھے ، جھاڑ پھونک نہیںجانتے تھے ، مگر یہ جانتے تھے کہ بیماری سے شفادینا دواکا کام نہیں اﷲ کاکام ہے ، اس لئے اﷲکانام لے کر دم کرنے کیلئے پہونچ گئے ۔ اور دم کرنے کا جو طریقہ انھوں نے اختیار کیا ، یوں کہئے کہ وہ خاص توفیق الٰہی تھی ،بیماری سنگین ، موت کا کھلاہوا دروازہ ، انھوں نے طے کیا کہ اﷲ کے کلام سے اس دروازہ کو بند کرنا ہے ، وہ مریض کے پاس بیٹھ گئے ، حافظ نہ تھے ، قرآن شریف کھول لیاا ور تلاوت شروع کردی تیس