نمونے کے انسان |
زرگان د |
|
نے کسی بزرگ کے بارے میں پوچھا ،ان کے احوال وکوائف اور حالات زندگی اور ان کے بارے میں دوسرے لوگوں رائیں بیان کرنا شروع کردیتے،کبھی کبھی تو حیرت ہوتی کہ اس تفصیل کے ساتھ یہ چیزیں ان کوکیسے یاد ہیں؟۔ زمانہ قریب کے دو بزرگ جن کی قربت کا لطف مولانا اٹھائے ہوئے تھے،ایک حضرت مولانا محمد احمد صاحب نوراللہ مرقدہ اور دوسرے حضرت مولانا قاری صدیق صاحب نوراللہ مرقدہ، ہردو حضرات کا تذکرہ بکثرت اور تسلسل کے ساتھ کیا کرتے تھے،ان کے الطاف وعنایات جو مولانا کی ذات پر تھی،ان کاحلم وعفو،ان کی بے نفسی وسادگی،ان کی عبادت گزاری وشب بیداری،ان کے ورع و تقوی کی داستان ہمیشہ سنایا کرتے تھے،کئی مرتبہ میں نے دیکھا کہ ان کا تذکرہ کرتے کرتے آواز بھرا گئی، طبیعت بے چین ہوگئی،اور آنکھوں سے اشکوں کے موتی ٹپکنے لگے۔ اپنے شیخ حضرت مولانا عبدالواحد صاحب مدظلہ کا تذکرہ مجھ سے بہت کیا ہے ،خلوت و جلوت ہر جگہ،جب بھی ان کا تذکرہ ہوا ہے میں نے یہ بات نوٹ کی ہے کہ آواز ضرور رندھی اور گلو گیر ہوئی ہے، خاص طور سے جب ان کے تحمل اور ان کی سادگی کو بیان کرتے تو ضرور اشکوںکے سوغات لٹاتے۔ والد صاحب کا آخری حج جس میں مَیں بھی ساتھ تھا،ایک مرتبہ حرم میں ایک ستون سے ٹیک لگائے بیٹھے ہوئے تھے،ساتھ میں صرف میں تھا،بقیہ لوگ سعی وطواف میں مشغول تھے،نہ جانے کس مناسبت سے شعر وشاعری کا ذکر چھڑ گیا،اکبر الہ آبادی کے اس شعر سے بات چلی۔ ا لا یا ایہا ا لطفلک بجو راہک بناولہا کہ قرآں سہل بود اول ولے افتاد مشکلہا اور جگر کے اس شعر تک بات پہونچی۔ میرا کمال عشق بس اتنا ہے اے جگر وہ مجھ پہ چھاگئے میں زمانے پہ چھا گیا اس شعرکا ذکر ہونا تھا کہ طبیعت پھڑک اٹھی،پے در پے بزرگوں کے کمال عشق کے کئی واقعات سنائے ،اور بتلایا کہ کیسے ان پر اللہ ورسول چھاگئے اور یہ لوگ پورے جہاں پر چھاگئے۔