نمونے کے انسان |
زرگان د |
|
’’قاری صاحب ! اتنی اچھی باتیں سنی ہیں اب تو پان کا استحقاق ہوگیا ہے ، سب لوگ ہنس پڑے اور پان کا دور چل پڑا‘‘۔ میرا بھی اس سلسلہ کا ایک مشاہدہ سنتے چلئے۔حضرت مولاناجب ڈائلیسیس کے سلسلہ میں ممبئی میںمقیم تھے،اسی وقت ان کے استاذ حضرت مولانا زین العابدین صاحب بھی بغرض علاج ممبئی آئے ہوئے تھے،حضرت مولانا ان کی مدت قیام میں کئی مرتبہ ملنے گئے،ایک مرتبہ مجھے بھی ساتھ لے گئے،مولاناکو کینسر کا مرض تھا،اور مولانا کو بھی اندیشہ ہوچلا تھا کہ اب وہ اس بیماری سے جانبر نہ ہوسکیں گے، اسی مناسبت سے ان کی مجلس شوق لقاء الٰہی کی باتوں سے اور اس کی مسرتوں سے لبریز ہوا کرتی تھی،اور ایک گونہ مسرت کی لہریں بھی ان کی چہرے سے ہویدا تھیں،اس کیفیت کو دیکھنا تھا کہ حضرت مولانا کے تذکرہ صالحین کی حس جاگ اٹھی،وہاں سے اٹھے تو مجھ سے کہا کہ بیٹے !مولانا کے چہرے کو دیکھ رہے تھے، کیسا لقاء الٰہی کی خوشی میں دمک رہا تھا؟اس کے بعد بزرگان پیشیں کے دم واپسیں کے واقعات سنانا شروع کردئیے،پورے راستے قصص بزرگاں کا سلسلہ چلتا رہا،اس میں اتنی محویت ہوئی کہ گھر کا آنا بھی فراموش ہوگیا،ڈرائیور نے جب گاڑی روک کر متنبہ کیا تب خیال آیا،تھوڑی دیر کے لئے سلسلہ ٹوٹا ،گھر پہونچ کر پھر وہی سلسلہ شروع ہوگیا،تقریباً ایک گھنٹہ تک یہ سلسلہ چلتا رہا،ظہر کی اذان ہوئی توقصص اکابر کا باب بند ہوا،اور ظہر کی نماز پڑھی گئی۔ مولانا زین العابدین صاحب کے انتقال کے بعد ان کی اس کیفیت کو اس ذوق وشوق اور محبت کے ساتھ ایک مضمون میں بیان کیا ہے کہ پڑھ کر پہلوں کی یاد تازہ ہوجاتی ہے۔اس مضمون سے خود صاحب مضمون کی اندرونی کیفیت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ان کا قلب یاد الٰہی اور بزرگوں کی عظمت سے کس درجہ معمور تھا۔ اگر کہا جائے کہ تذکرہ بزرگاں مولانا کا وظیفہ حیات تھا تو غلط نہیں ہوگا،زمانہ قدیم اور ماضی قریب کے بزرگوں کے واقعات اس کثرت سے ان کو یاد تھے کہ حیرت ہوتی تھی،موضوع گفتگو چاہے جو ہو،ایسا نہیں ہوسکتا تھا کہ اس موضوع پر چندواقعات نہ سنائیں،بزرگان دین سے ان کی یہ دلچسپی صرف واقعات تک محدودنہیں تھی بلکہ ان کے احوال وکوائف بھی ازبر تھے،جہاں کسی