نمونے کے انسان |
زرگان د |
|
مضامین اور اس کے جملے حفظ ہوگئے پھر اﷲ ہی جانتا ہے کہ اس وقت سے اب تک کتنے تذکرے ، سوانح عمریاں پڑھ چکا ہوں ۔ اس راستے سے بزرگوں سے محبت پیدا ہوئی ، قلب میں اس محبت کارسوخ ہوا ۔ جن کو حضرت مولانا کی شاگردی کا شرف حاصل ہے یا پھر ان کی صحبت اٹھائے ہوئے ہیں وہ بخوبی اس سے واقف ہوں گے کہ ان کی کوئی مجلس،کوئی گفتگو،وعظ وتقریر،درس وتدریس بزرگان دین کے تذکرے سے خالی نہیں ہوتی تھی،اس کثرت سے بزرگان دین کا تذکرہ کرتے تھے کہ ایک زمانہ میں ان کے کچھ خاص دوستوں نے ان کا نام ہی’’تذکرۃ الاولیاء‘‘ رکھ دیا تھا،اور یہ سچ بھی ہے کہ وہ چلتے پھرتے تذکرۃ الاولیاء‘‘ تھے۔ بزرگان دین کے تذکرہ کے وقت ان پر ربودگی سی کیفیت طاری ہوجاتی تھی،ہر چیز فراموش ہوجاتی تھی،پھر وہ ہوتے اور تذکرے ہوتے۔مولانا مسلم صاحب کے تذکرے میں انہوں نے لکھا ہے کہ: ’’ مولانا کو اپنے اکابر سے بے حد لگاؤ تھا ۔ ان کا تذکرہ چھڑ جاتا تو کسی طرح انھیں سیری نہ ہوتی ۔ میرا طبعی ذوق بھی یہی ہے ،میں کبھی مجلس میں بزرگوں کا تذکرہ چھیڑ دیتا اور بے تکان ان کے احوال و واقعات اور اقوال بیان کرتا ، کبھی گھنٹوں یہ سلسلۂ بیان جاری رہتا مگر مولانا پہلو نہ بدلتے بلکہ یکساں دلچسپی اور انشرح کے ساتھ سنتے ، میں رکتا تو مزید کوئی بات چھیڑ کر سلسلہ دراز کردیتے کبھی کبھی صراحۃً فرمائش کرتے کہ بزرگوں کے احوال وواقعات سناؤ اور میرا یہ حال ہوتا کہ ’’دیوانہ را ہوئے بس است ‘‘ شروع ہوجاتا ۔ ’’ایک مرتبہ غازی پور میں وہیں کے ایک استاذ میرے محبوب دوست جناب قاری شبیر احمد صاحب … جو ازراہ ظرافت کبھی کبھی مجھے تذکرۃ الاولیاء کے نام سے یاد کیا کرتے تھے… کے کمرے میں ہم لوگ موجود تھے ۔ حضرت مولانا صدر مجلس تھے ، کسی تقریب سے بزرگوں کا تذکرہ چھڑ گیا اور مین دیر تک اسی مبارک ذکرمیں محو ومنہمک رہا ۔ مولانا بھی اسی انہماک سے سنتے رہے ، مولانا پان کھانے کے عادی تھے مگر اس وقت گفتگو کی محویت میں کسی کو پان کا خیال نہ رہا خودمولانا بھی بھولے ہی رہے ، بہت دیر کے بعد میں خاموش ہوا تو فرمایا :